محبتوں کی مسافت سے کٹ کے دیکھتے کیا
محبتوں کی مسافت سے کٹ کے دیکھتے کیا
مسافر شب ہجراں پلٹ کے دیکھتے کیا
سرور عشق میں گم ہو گئے تھے ہم دونوں
ہوائے دامن شب سے لپٹ کے دیکھتے کیا
طلسم یار رگ و پے میں ڈھل رہا تھا، ہم
نشاط و غم کے صحیفے الٹ کے دیکھتے کیا
بہار نو کو جنم دے رہی تھی وصل کی شب
ہم عافیت کی رتوں میں سمٹ کے دیکھتے کیا
تھا سیل حسرت دل دشمن حیات مگر
رہ بقا بھی اسی میں تھی ہٹ کے دیکھتے کیا