رفیق راز کی غزل

    بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے

    بجھا چراغ ہواؤں کا سامنا کر کے بہت اداس ہوا ہوں دریچہ وا کر کے سکوت ٹوٹ گیا اور روشنی سی ہوئی شرار سنگ سے نکلا خدا خدا کر کے کھلا نہ دن کو کسی اسم سے وہ آہنی در اب آؤ دیکھتے ہیں رات کو صدا کر کے اڑوں گا خاک سا پہلے پہل اور آخر کار ہوائے تند کو رکھ دوں گا میں صبا کر کے وہ جس کے ...

    مزید پڑھیے

    اے ہوائے دیار درد و ملال

    اے ہوائے دیار درد و ملال مرحبا مرحبا تعال تعال لفظ گم سم ہیں اور ان میں ہے غم میری خاموشیوں کا جاہ و جلال عقل سے کسب روشنی کر کے ملک دل ہو گیا ہے رو بہ زوال تو بھی اس میں ہے تیری دنیا بھی کتنا گہرا ہے سوچ کا پاتال پکی سڑکوں پہ یاد آتا ہے کچے رستوں کا سبزۂ‌ پامال کس پہ اب ہے ...

    مزید پڑھیے

    چند حرفوں نے بہت شور مچا رکھا ہے

    چند حرفوں نے بہت شور مچا رکھا ہے یعنی کاغذ پہ کوئی حشر اٹھا رکھا ہے مجھ کو تو اپنے سوا کچھ نظر آتا ہی نہیں میں نے دیواروں کو آئینہ بنا رکھا ہے آپ کے پاؤں تلے سے بھی کھسکتی ہے زمیں آپ نے کیوں یہ فلک سر پہ اٹھا رکھا ہے مصحف ذات کی تفسیر ہے یہ گہری چپ چپ ہی معنی ہے میاں حرف میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک صحرا ہے مری آنکھ میں حیرانی کا

    ایک صحرا ہے مری آنکھ میں حیرانی کا میرے اندر تو مگر شور ہے طغیانی کا کوئی درویش خدا پرمست ابھی شہر میں ہے نقش باقی ہے ابھی دشت کی ویرانی کا سانس روکے ہے کھڑی در سے ترے دور ہوا خاک دل یہ ہے سبب تیری پریشانی کا ہم فقیروں کا توکل ہی تو سرمایہ ہے شکوہ کس منہ سے کریں بے سر و سامانی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب خامشی ہے غل مچاتی رہتی ہے

    عجیب خامشی ہے غل مچاتی رہتی ہے یہ آسمان ہی سر پر اٹھاتی رہتی ہے کیا ہے عشق تو ثابت قدم بھی رہنا سیکھ میاں یہ ہجر کی آفت تو آتی رہتی ہے یہ جو ہے آج خرابہ کبھی چمن تھا کیا یہاں تو ایک مگس بھنبھناتی رہتی ہے ڈرو نہیں یہ کوئی سانپ زیر کاہ نہیں ہوا ہے اور وہی سرسراتی رہتی ہے مرے ہی ...

    مزید پڑھیے

    میں ابھی اک بوند ہوں پہلے کرو دریا مجھے

    میں ابھی اک بوند ہوں پہلے کرو دریا مجھے پھر اگر چاہو کرو وابستۂ صحرا مجھے پھیلتا ہی جا رہا تھا میں خموشی کی طرح قلزم آواز نے ہر سمت سے گھیرا مجھے میرے ہونے یا نہ ہونے سے اسے مطلب نہ تھا تیرے ہونے کا تماشا ہی لگی دنیا مجھے لوگ کہتے ہیں کسی منظر کا میں بھی رنگ تھا تو نے اے چشم فلک ...

    مزید پڑھیے

    کھینچ لائی تھی مجھے خوشبو ہی تیرے پیرہن کی

    کھینچ لائی تھی مجھے خوشبو ہی تیرے پیرہن کی پر تری آنکھوں میں ہے وحشت بھی آہوئے ختن کی عشق کی آتش کہاں بارود کے شعلے ہیں رقصاں اب کہاں وہ زلف اور وہ داستاں دار و رسن کی کیا ہوئے وہ دن کہ جب اکثر میسر تھی مجھے بھی دن کو ظلمت زلف کی اور دھوپ شب کو سیم تن کی آتش فرقت سے میں شب کو ...

    مزید پڑھیے

    فانی کہاں ہے ہستئ فانی کا شور بھی

    فانی کہاں ہے ہستئ فانی کا شور بھی شامل ہے اس میں نقل مکانی کا شور بھی حساس ہوں اور اس پہ وہ شدت کی پیاس ہے سنتا ہوں اب سراب میں پانی کا شور بھی ایسا سکوت تھا کہ سنائی دیا مجھے حرف تہی میں موج معانی کا شور بھی بے برگ و بار پیڑ سے رہتے ہیں دور دور رہگیر بھی ہوائے خزانی کا شور ...

    مزید پڑھیے

    تمام روئے زمیں پر سکوت چھایا تھا

    تمام روئے زمیں پر سکوت چھایا تھا نزول کیسی قیامت کا ہونے والا تھا یہاں تو آگ اگلتی ہے یہ زمیں ہر سو وہ ایک ابر کا پارہ کہاں پہ برسا تھا بس ایک بار ہوا تھا وجود کا احساس بس ایک بار دریچے سے اس نے جھانکا تھا ابھی ڈسا نہ گیا تھا یہ جسم تپتا ہوا ابھی خزینۂ مخفی پہ سانپ سویا تھا سفر ...

    مزید پڑھیے

    سانپ سا لیٹا ہوا سنسان رستہ سامنے تھا

    سانپ سا لیٹا ہوا سنسان رستہ سامنے تھا خطرہ آغاز سفر میں ایک ایسا سامنے تھا دشت میں گھمسان کا وہ رن پڑا تھا کچھ نہ پوچھو دھوپ میری پشت پر تھی اور سایا سامنے تھا اب تو ان آنکھوں کے آگے آئینہ ہے اور میں ہوں ہائے مژگاں کھولنے سے پہلے کیا کیا سامنے تھا بزدل ایسے تھے بھگو پائے نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4