رافعہ زینب کی غزل

    یوں جونؔ پڑھ کر لہو اگلنے کی مجھ سے شرطیں نہ باندھ لینا

    یوں جونؔ پڑھ کر لہو اگلنے کی مجھ سے شرطیں نہ باندھ لینا غرض کے بے جا گمان پر تم یقیں کی گرہیں نہ باندھ لینا طویل رستہ سفر ہے مشکل اثاثہ کم ہی رکھو تو بہتر سو ایسا کرنا کہ اپنے دامن میں میری نظمیں نہ باندھ لینا ابل رہا ہے جو ایک چشمہ وہ بحر اعظم بنے گا اک دن کسی کنارے کہ چاہ میں تم ...

    مزید پڑھیے

    اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیئے

    اب کہاں وہ وقت کے بے لوث یاری چاہیئے عمر کے اس دور میں اب ذمہ داری چاہیئے وصل‌ و فرقت کے طلسمی دائروں سے ٹوٹ کر اب رفاقت میں ہمیں کچھ پائیداری چاہیئے یوں نہیں کے صبر کی تلقین کر کے چل دئے چارہ گر ہیں تو مسلسل غم گساری چاہیئے کس قدر ہیں لوگ میرے حال پر ماتم کناں شکل پر اپنی بھی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی اتنا بے سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار

    کوئی اتنا بے سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار ایک منظر پر گزارا کیسے ہو سکتا ہے یار خاک پانی اور صبا کا بھی تو کچھ حصہ رہے پھول آخر بس تمہارا کیسے ہو سکتا ہے یار عشق میں ہو وصل یا کے ہجر دونوں ہیں بجا دل کا سودا ہے خسارہ کیسے ہو سکتا ہے یار موت سے پہلے کروں توبہ میں یاد یار سے مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو اتنا ہی بس غنیمت ہے

    ہم کو اتنا ہی بس غنیمت ہے نا سہی عشق پر عنایت ہے دل کو انکار ہے محبت سے اور اس کا سبب محبت ہے ہم بھلے جان ہار بیٹھے ہوں اس کو اک دوست کی ضرورت ہے کچھ نہیں ہے گلہ ہمیں اس سے زندگی سے بہت شکایت ہے اپنی خاطر ذرا نہیں فرصت اس کی خاطر بڑی فراغت ہے اس غزل میں فقط ہے ہجر و وصال اس میں ...

    مزید پڑھیے