یوں جونؔ پڑھ کر لہو اگلنے کی مجھ سے شرطیں نہ باندھ لینا
یوں جونؔ پڑھ کر لہو اگلنے کی مجھ سے شرطیں نہ باندھ لینا
غرض کے بے جا گمان پر تم یقیں کی گرہیں نہ باندھ لینا
طویل رستہ سفر ہے مشکل اثاثہ کم ہی رکھو تو بہتر
سو ایسا کرنا کہ اپنے دامن میں میری نظمیں نہ باندھ لینا
ابل رہا ہے جو ایک چشمہ وہ بحر اعظم بنے گا اک دن
کسی کنارے کہ چاہ میں تم بس اپنی موجیں نہ باندھ لینا
جہاں کی خاطر اے جان جاناں جو سنگ دل تم بنے پھرے ہو
ملے محبت تو پیٹھ پیچھے خود اپنی باہیں نہ باندھ لینا