ہم کو اتنا ہی بس غنیمت ہے

ہم کو اتنا ہی بس غنیمت ہے
نا سہی عشق پر عنایت ہے


دل کو انکار ہے محبت سے
اور اس کا سبب محبت ہے


ہم بھلے جان ہار بیٹھے ہوں
اس کو اک دوست کی ضرورت ہے


کچھ نہیں ہے گلہ ہمیں اس سے
زندگی سے بہت شکایت ہے


اپنی خاطر ذرا نہیں فرصت
اس کی خاطر بڑی فراغت ہے


اس غزل میں فقط ہے ہجر و وصال
اس میں کچھ بھی نہیں بلاغت ہے