کوئی اتنا بے سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار

کوئی اتنا بے سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار
ایک منظر پر گزارا کیسے ہو سکتا ہے یار


خاک پانی اور صبا کا بھی تو کچھ حصہ رہے
پھول آخر بس تمہارا کیسے ہو سکتا ہے یار


عشق میں ہو وصل یا کے ہجر دونوں ہیں بجا
دل کا سودا ہے خسارہ کیسے ہو سکتا ہے یار


موت سے پہلے کروں توبہ میں یاد یار سے
مجھ سے مجنوں کو گوارہ کیسے ہو سکتا ہے یار


تجھ کو چاہے جو میں اس پر وار دوں دنیا جہاں
اس سے بڑھ کر کوئی پیارا کیسے ہو سکتا ہے یار