Rafia Shabnam Abidi

رفیعہ شبنم عابدی

رفیعہ شبنم عابدی کی غزل

    بھول جاتے ہیں تقدس کے حسیں پل کتنے

    بھول جاتے ہیں تقدس کے حسیں پل کتنے لوگ جذبات میں ہو جاتے ہیں پاگل کتنے روز خوشبو کے مقدر میں رہی خود سوزی اپنی ہی آگ میں جلتے رہے صندل کتنے سبز موسم نہ یہاں پھر سے پلٹ کر آیا ہو گئے زرد مرے گاؤں کے پیپل کتنے خود کشی قتل انا ترک تمنا بیراگ زندگی تیرے نظر آنے لگے حل کتنے بارشیں ...

    مزید پڑھیے

    نارسائی کا چلو جشن منائیں ہم لوگ

    نارسائی کا چلو جشن منائیں ہم لوگ شاید اس طرح سے کچھ کھوئیں تو پائیں ہم لوگ ریت ہی ریت اگر اپنا مقدر ٹھہرا کیونکہ پھر ایک گھروندا ہی بنائیں ہم لوگ جسم کی قید کوئی قید نہیں ہوتی ہے آؤ سب جھوٹی حدیں توڑ کے جائیں ہم لوگ اس بدلتے ہوئے موسم کا بھروسا بھی نہیں گیلی مٹی پہ کوئی نقش ...

    مزید پڑھیے

    بدلتی رت پہ ہواؤں کے سخت پہرے تھے

    بدلتی رت پہ ہواؤں کے سخت پہرے تھے لہو لہو تھی نظر داغ داغ چہرے تھے یہ راز کھل نہ سکا حرف نا رسا پہ مرے صدائیں تیز بہت تھیں کہ لوگ بہرے تھے وہ پوجنے کی سیاست سے خوب واقف تھا وہی چڑھائے جو گیندے کے زرد سہرے تھے جو بھائی لوٹ کے آئے کبھی نہ دریا سے انہیں کے بازو قوی تھے بدن اکہرے ...

    مزید پڑھیے

    خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے

    خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے آج کے دور میں جینا بھی اداکاری ہے تم جو پردیس سے آؤ تو یقیں آ جائے اب کے برسات یہ سنتے ہیں بڑی پیاری ہے میرے آنگن میں تو کانٹے بھی ہرے ہو نہ سکے اس کی چھت پہ تو مہکتی ہوئی پھلواری ہے چوڑیاں کانچ کی قاتل نہ کہیں بن جائیں سحر انگیز بری ان کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2