Rafia Shabnam Abidi

رفیعہ شبنم عابدی

رفیعہ شبنم عابدی کی غزل

    جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں

    جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں جی کہتا تھا اس سے کہہ دوں لیکن کیسے کہتی میں میری ذات کا جس کی نظر سے اتنا گہرا رشتہ ہے اس کی آنکھ سمندر جیسی ہری بھری اک دھرتی ہے بند کواڑوں پر اک جانی پہچانی دستک جو سنی یوں ہی ڈوپٹہ چھوڑ کے بھاگی ننگے پاؤں ہی پگلی میں کس کا چہرہ دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ تیری یاد کے لمحے ترے خیال کے دن

    وہ تیری یاد کے لمحے ترے خیال کے دن علاج درد کے زخموں کے اندمال کے دن وہ اک رچی بسی تہذیب اپنے پرکھوں کی وہ دو یا چار سہی تھے مگر مثال کے دن مجھے تو یاد ہے اب تک وہ کیا زمانہ تھا ترے جواب کا موسم مرے سوال کے دن ہر ایک پل وہ کبھی روٹھنا کبھی مننا ندامتوں کی وہ گھڑیاں وہ انفعال کے ...

    مزید پڑھیے

    ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا

    ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا میز پر تیری کتابوں کو سجائے رکھا تو نے اک شام جو آنے کا کیا تھا وعدہ میں نے دن رات چراغوں کو جلائے رکھا کس سلیقے سے خیالوں کو زباں دے دے کر مجھ کو اس شخص نے باتوں میں لگائے رکھا میں وہ سیتا کہ جو لچھمن کے حصاروں میں رہی ہم وہ جوگی کہ الکھ پھر ...

    مزید پڑھیے

    بسنتی رت ہے سب پھولوں کو تو محفوظ رکھنا

    بسنتی رت ہے سب پھولوں کو تو محفوظ رکھنا میرے اللہ کھلی سرسوں کو تو محفوظ رکھنا سروں کو کاٹنے کی فصل پھر سے آ گئی ہے ان افشاں سے بھری مانگوں کو تو محفوظ رکھنا جلیں جب گھر تو یا رب تجھ سے اتنی التجا ہے دوپٹوں سے ڈھکے چہروں کو تو محفوظ رکھنا فضاؤں میں ہزاروں باز منڈلانے لگے ہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ابر چھایا تھا فضاؤں میں تری باتوں کا

    ابر چھایا تھا فضاؤں میں تری باتوں کا کتنا دل کش تھا وہ منظر بھری برساتوں کا بجھتی شمعوں کے تعفن سے بچانے تجھ کو میں نے آنچل میں سمیٹا ہے دھواں راتوں کا کوئی شہنائی سے کہہ دو ذرا خاموش رہے شور اچھا نہیں لگتا مجھے باراتوں کا لاکھ دروازے ہوں چپ اور دریچے خاموش چوڑیاں راز اگلتی ...

    مزید پڑھیے

    گھرے ہیں چاروں طرف بیکسی کے بادل پھر

    گھرے ہیں چاروں طرف بیکسی کے بادل پھر سلگ رہا ہے ستاروں بھرا اک آنچل پھر بس ایک بار ان آنکھوں کو اس نے چوما تھا ہمیشہ نم ہی رہا آنسوؤں سے کاجل پھر یہ کیسی آگ ہے جو پور پور روشن ہے یہ کس نے رکھ دی مری انگلیوں پہ مشعل پھر پھر اب کی بار لہو رنگ بارشیں برسیں کسی نے کاٹ دئے ہیں سروں کے ...

    مزید پڑھیے

    مئی کا آگ لگاتا ہوا مہینہ تھا

    مئی کا آگ لگاتا ہوا مہینہ تھا گھٹا نے مجھ سے مرا آفتاب چھینا تھا بجا کہ تجھ سا رفوگر نہ مل سکا لیکن یہ تار تار وجود ایک دن تو سینا تھا اسے یہ ضد تھی کہ ہر سانس اس کی خاطر ہو مگر مجھے تو زمانے کے ساتھ جینا تھا یہ ہم ہی تھے جو بچا لائے اپنی جاں دے کر ہوا کی زد پہ تری یاد کا سفینہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں

    ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں دل کے جنگل یوں ہی بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں کیسے خوش رنگ ہوں خوش ذائقہ پھل ہوں لیکن وقت پر چکھے نہیں جائیں تو سڑ جاتے ہیں اپنے لفظوں کے تأثر کا ذرا دھیان رہے حاکم شہر کبھی لوگ بھی اڑ جاتے ہیں ریت تاریخ کے سینے میں ہٹاتے ہیں وہی آبلے پیاسی زبانوں ...

    مزید پڑھیے

    جاڑوں بھر کیوں میرے آنگن میں سایہ تھا

    جاڑوں بھر کیوں میرے آنگن میں سایہ تھا سورج نے کس چھت پر خیمہ لگوایا تھا اک پتھر تھا جو ماتھے سے ٹکرایا تھا پھینکنے والا شاید میرا ماں جایا تھا پھول کو کب تھی سیر کی اور تفریح کی خواہش شوخ ہوا ہی نے یہ رستہ دکھلایا تھا طوطوں اور چڑیوں کو اب کیوں ڈھونڈ رہے ہو نیم کا پیڑ تو خود تم ...

    مزید پڑھیے

    روز اٹھتا ہے دھواں کوہ ندا کے اس پار

    روز اٹھتا ہے دھواں کوہ ندا کے اس پار چاند چپ چاپ سلگتا ہے فضا کے اس پار بھیگ جاتی ہے یہ معصوم سی دھرتی ہر صبح کون روتا ہے بتاؤ تو گھٹا کے اس پار سرحد جسم سے آگے حد امکاں سے پرے شہر جاں رہتا ہے دیوار انا کے اس پار نیکیاں بانٹتے رہنے کی سزا لازم ہے پارہ پارہ ہے بدن کوئے جزا کے اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2