جاڑوں بھر کیوں میرے آنگن میں سایہ تھا
جاڑوں بھر کیوں میرے آنگن میں سایہ تھا
سورج نے کس چھت پر خیمہ لگوایا تھا
اک پتھر تھا جو ماتھے سے ٹکرایا تھا
پھینکنے والا شاید میرا ماں جایا تھا
پھول کو کب تھی سیر کی اور تفریح کی خواہش
شوخ ہوا ہی نے یہ رستہ دکھلایا تھا
طوطوں اور چڑیوں کو اب کیوں ڈھونڈ رہے ہو
نیم کا پیڑ تو خود تم نے ہی کٹوایا تھا
جیون کیا تھا تاش کے پتوں کی بازی تھی
شاہ مگر کب میرے حصے میں آیا تھا
چاروں قل اک سورۂ فیل اک سورۂ کوثر
اس دن ہم نے یہی وظیفہ دہرایا تھا
راکھ کے ڈھیر پہ رقص کناں تھا وہ اک وحشی
وہی کہ جس نے سارے شہر کو جلوایا تھا
ایک قلم کچھ کورے کاغذ اور کچھ سوچیں
لے دے کے بس یہی تو میرا سرمایہ تھا
اک شبنمؔ تھی جو محفوظ تھی خیمۂ گل میں
پتی پتی کو سورج نے بہکایا تھا