رفیع رضا کی غزل

    آنا جانا ہے تو قامت سے تم آؤ جاؤ

    آنا جانا ہے تو قامت سے تم آؤ جاؤ در اظہار مروت سے تم آؤ جاؤ وہ تحیر جو تمہیں لے کے یہاں آیا تھا اس تحیر کی وساطت سے تم آؤ جاؤ ہم کسی سمت بگولوں کو نہیں روکتے ہیں گرمی ذوق شرارت سے تم آؤ جاؤ کف اڑانے پہ بھی پابندی نہیں ہے کوئی ہاں مگر تھوڑی نفاست سے تم آؤ جاؤ ہمیں امید بلاغت تو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سہمی ہوئی ڈرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

    آنکھ سہمی ہوئی ڈرتی ہوئی دیکھی گئی ہے امن کی فاختہ مرتی ہوئی دیکھی گئی ہے کیا بچا کتنا بچا تاب کسے ہے دیکھے موج خوں سر سے گزرتی ہوئی دیکھی گئی ہے ایسے لگتا ہے یہاں سے نہیں جانے والی جو سیہ رات ٹھہرتی ہوئی دیکھی گئی ہے دوسری بار ہوا ہے کہ یہی دوست ہوا پر پرندوں کے کترتی ہوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2