رفیع رضا کی غزل

    پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں

    پیڑ سوکھا حرف کا اور فاختائیں مر گئیں لب نہ کھولے تو گھٹن سے سب دعائیں مر گئیں ایک دن اپنا صحیفہ مجھ پہ نازل ہو گیا اس کو پڑھتے ہی مری ساری خطائیں مر گئیں یاد کی گدڑی کو میں نے ایک دن پہنا نہیں ایک دن کے ہجر میں ساری بلائیں مر گئیں میں نے مستقبل میں جا کر ایک لمبی سانس لی پھر مرے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو خاک کی تقریب رو نمائی ہوئی

    کبھی جو خاک کی تقریب رو نمائی ہوئی بہت اڑے گی وہاں بھی مری اڑائی ہوئی خدا کا شکر سخن مجھ پہ مہربان ہوا بہت دنوں سے تھی لکنت زباں میں آئی ہوئی یہی ہے غض بصر یہ ہے دیکھنا میرا رہے گی آنکھ تحیر میں ڈبڈبائی ہوئی تمھارا میرا تعلق ہے جو رہے سو رہے تمھارے ہجر نے کیوں ٹانگ ہے اڑائی ...

    مزید پڑھیے

    وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے

    وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے اب ڈھونڈ مجھے مجمع عشاق سے آگے اک سرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے اے شخص گزر دیدۂ نمناک سے آگے اس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پوچھوں افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی یہ خاک تو اڑتی نہیں خاشاک سے آگے جو نقش ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ وقت مناجات کرنے والا تھا

    اگرچہ وقت مناجات کرنے والا تھا مرا مزاج سوالات کرنے والا تھا مجھے سلیقہ نہ تھا روشنی سے ملنے کا میں ہجر میں گزر اوقات کرنے والا تھا میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا کھلی ہوئی تھیں بدن پر رواں رواں آنکھیں نہ جانے کون ملاقات کرنے والا تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    رات میں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا

    رات میں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا بند کی آنکھ تو افلاک سے لگ کر سویا اونگھتا تھا کہیں محراب کی سرشاری میں اک دیا سا کسی چقماق سے لگ کر سویا ایک جلتا ہوا آنسو جو نہیں سوتا تھا دیر تک دیدۂ نمناک سے لگ کر سویا ان گنت آنکھیں مرے جسم پہ چندھیائی رہیں بقعۂ نور مری خاک سے لگ کر ...

    مزید پڑھیے

    لمس کو چھوڑ کے خوشبو پہ قناعت نہیں کرنے والا

    لمس کو چھوڑ کے خوشبو پہ قناعت نہیں کرنے والا ایسی ویسی تو میں اب تم سے محبت نہیں کرنے والا مجھ سے بہتر کوئی دنیا میں کتابت نہیں کرنے والا پر ترے ہجر کی میں جلد اشاعت نہیں کرنے والا اپنے ہی جسم کو کل اس نے مری آنکھوں سے پورا دیکھا اس سے بڑھ کر کوئی منظر کبھی حیرت نہیں کرنے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دوں کیا

    میں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دوں کیا زمین کھینچ لوں اور آسمان دے دوں کیا میں دنیا زاد نہیں ہوں مجھے نہیں منظور مکان لے کے تمہیں لا مکان دے دوں کیا کہ ایک روز کھلا رہ گیا تھا آئینہ اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا اڑے کچھ ایسے کہ میرا نشان تک نہ رہے میں اپنی خاک کو اتنی اڑان دے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کا بوجھ اور اس پر یہ آسمان کا بوجھ

    زمیں کا بوجھ اور اس پر یہ آسمان کا بوجھ اتار پھینک دوں کاندھوں سے دو جہان کا بوجھ پڑا ہوا ہوں میں سجدے میں کہہ نہیں پاتا وہ بات جس سے کہ ہلکا ہو کچھ زبان کا بوجھ پھر اس کے بعد اٹھاؤں گا اپنے آپ کو میں اٹھا رہا ہوں ابھی اپنے خاندان کا بوجھ دبی تھی آنکھ کبھی جس مکان حیرت سے اب اس ...

    مزید پڑھیے

    ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے

    ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے اس سمندر میں کوئی اور سمندر گم ہے بے بسی کیسا پرندہ ہے تمہیں کیا معلوم اسے معلوم ہے جو میرے برابر گم ہے چرخ سو رنگ کو فرصت ہو تو ڈھونڈے اس کو نیلگوں سوچ میں جو مست قلندر گم ہے دھوپ چھاؤں کا کوئی کھیل ہے بینائی بھی آنکھ کو ڈھونڈ کے لایا ہوں تو منظر ...

    مزید پڑھیے

    خواب میں یا خیال میں مجھے مل

    خواب میں یا خیال میں مجھے مل تو کبھی خد و خال میں مجھے مل میرے دل کی دھمال میں مجھے دیکھ میرے سر میری تال میں مجھے مل میری مٹی کو آنکھ دی ہے تو پھر کسی موج وصال میں مجھے مل مجھے کیوں عرصۂ حیات دیا اب انہیں ماہ و سال میں مجھے مل کسی صبح فراق میں مجھے چھوڑ کسی شام ملال میں مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2