Rafat Shameem

رفعت شمیم

رفعت شمیم کی غزل

    ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے

    ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے نقش تعمیر جہاں بن کے بگڑتے ہی رہے اپنے ہی وہم و تذبذب تھے خرابی کا سبب گھر عقیدوں کے بسائے تو اجڑتے ہی رہے جانے کیا بات ہوئی موسم گل میں اب کے پنکھ پنچھی کے فضاؤں میں بکھرتے ہی رہے چند یادوں کی پناہ گاہ میں جانے کیوں ہم سایۂ شام کی مانند ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے

    آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے خواب کی ریت میں سورج کا شجر بوتی ہے ایک گمنامی کا جنگل ہوں جہاں شکل مری اپنی پہچان کا ہر نقش یقیں کھوتی ہے دور ان دیکھی سی سرحد ہے کہ جس کے اس پار کوئی بستی ہے جو راتوں کو سدا روتی ہے سطح چادر پہ شکن اور سر بالیں پہ نشیب یہ تو تنہائی ہے بستر ...

    مزید پڑھیے

    ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں

    ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں جس کے باہر انا کے پہرے ہیں شام پنچھی کہاں گزاریں گے شاخ گل پر جلے بسیرے ہیں ہم تو ملبہ ہیں نا شناسی کا ٹوٹے پھوٹے سے چند چہرے ہیں آج بانٹی ہے دھوپ سورج نے اپنے دامن میں کیوں اندھیرے ہیں جال ٹوٹے ملے ہیں ساحل پر کون جانے کہاں مچھیرے ہیں

    مزید پڑھیے

    خود کو جب سے جان گئے ہم

    خود کو جب سے جان گئے ہم دنیا کو پہچان گئے ہم دشمن کو جب پاس سے دیکھا دوست کو بھی پہچان گئے ہم من میں کیسی آگ لگی یہ تن کی چادر تان گئے ہم اس کے دیار شوق سے اکثر خود ہی تہی دامان گئے ہم

    مزید پڑھیے

    در کسی کا کھلا نہیں لگتا

    در کسی کا کھلا نہیں لگتا شہر یہ آشنا نہیں لگتا غم ہے فکر معاش میں ایسا آدمی کا پتا نہیں لگتا دوست جب سے ہوئے ہمارے تم کوئی دشمن برا نہیں لگتا یوں تو ملتے ہیں ٹوٹ کر لیکن ربط وہ دیر پا نہیں لگتا وعدہ حوروں کا بعد مرنے کے بندگی کا صلا نہیں لگتا

    مزید پڑھیے

    اپنے کو آغاز کو انجام میں پایا ہم نے

    اپنے کو آغاز کو انجام میں پایا ہم نے راز کیا پردۂ ابہام میں پایا ہم نے کھو گیا تھا جو کبھی بھیڑ میں چہروں کی اسے اپنی تنہائی کی ہر شام میں پایا ہم نے ریت بھرتے رہے آنکھوں میں سرابوں کی سدا عذر جینے کا اسی کام میں پایا ہم نے کتنے شیریں لب ناگفتہ مگر تھے اس کے لطف کچھ اور ہی دشنام ...

    مزید پڑھیے

    اب طبیعت کہاں روانی میں

    اب طبیعت کہاں روانی میں کشتی ٹوٹی ہے ٹھہرے پانی میں وقت یوں تھم گیا ہے آنکھوں میں دائرے جم گئے ہوں پانی میں گھر ہی اندر سے لٹ گیا سارا ہم تو باہر تھے پاسبانی میں لطف موسم کا کیا اٹھاتے ہم دل ہمیشہ رہا گرانی میں ہم تو خوش فہمیوں میں جیتے ہیں خوب مطلب ہے بے زبانی میں

    مزید پڑھیے

    کوئی پہرہ لگا نہیں ہوتا

    کوئی پہرہ لگا نہیں ہوتا میں ہی پھر بھی رہا نہیں ہوتا خون دل کا ہوا تو یہ جانا نقش کیوں دیر پا نہیں ہوتا وقت کیوں ہے غبار آنکھوں میں عکس بھی آشنا نہیں ہوتا کچھ تو دل سے کہا ہے آنکھوں نے زخم دل کیا ہرا نہیں ہوتا پھر اسے ہی تلاش کرتا ہوں جس کا کوئی پتا نہیں ہوتا جو بھی اپنی زباں ...

    مزید پڑھیے

    جب خواہش دنیا سے کوئی کام نہیں ہے

    جب خواہش دنیا سے کوئی کام نہیں ہے کیوں پھر دل شوریدہ کو آرام نہیں ہے شامل یہاں اثبات میں پہلوئے نفی ہے کامل کسی آغاز کا انجام نہیں ہے وہ دھوپ ہے آنکھوں میں کہ جل جاتی ہے ہر شام منظر ہے دھواں کوئی لب بام نہیں ہے کیا طرز رفاقت ہے کہ ملتے ہیں بصد شوق پر ذکر شناسائی و پیغام نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اب جو اٹھیں گے تو کاندھوں پہ اٹھانا ہوگا

    اب جو اٹھیں گے تو کاندھوں پہ اٹھانا ہوگا بستر خاک پہ پھر ہم کو سلانا ہوگا ہم سے اجڑے ہوئے لوگوں سے بھی مل کر دیکھو درمیاں کوئی تو اک ربط پرانا ہوگا آخری دھوپ ہیں آنکھوں میں بسا لو ورنہ پھر کہاں خواب کسی شب کا سہانا ہوگا جب ہو اثبات ہی خود اپنی نفی کا باعث دل کو ہر قید تمنا سے ...

    مزید پڑھیے