جب خواہش دنیا سے کوئی کام نہیں ہے

جب خواہش دنیا سے کوئی کام نہیں ہے
کیوں پھر دل شوریدہ کو آرام نہیں ہے


شامل یہاں اثبات میں پہلوئے نفی ہے
کامل کسی آغاز کا انجام نہیں ہے


وہ دھوپ ہے آنکھوں میں کہ جل جاتی ہے ہر شام
منظر ہے دھواں کوئی لب بام نہیں ہے


کیا طرز رفاقت ہے کہ ملتے ہیں بصد شوق
پر ذکر شناسائی و پیغام نہیں ہے


تنگ ظرفیٔ ہیت جسے کہتے ہیں غزل کی
آفاق معانی ہے وہ ابہام نہیں ہے