Rafat Shameem

رفعت شمیم

رفعت شمیم کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے

    ٹوٹ کر عالم اجزا میں بکھرتے ہی رہے نقش تعمیر جہاں بن کے بگڑتے ہی رہے اپنے ہی وہم و تذبذب تھے خرابی کا سبب گھر عقیدوں کے بسائے تو اجڑتے ہی رہے جانے کیا بات ہوئی موسم گل میں اب کے پنکھ پنچھی کے فضاؤں میں بکھرتے ہی رہے چند یادوں کی پناہ گاہ میں جانے کیوں ہم سایۂ شام کی مانند ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے

    آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے خواب کی ریت میں سورج کا شجر بوتی ہے ایک گمنامی کا جنگل ہوں جہاں شکل مری اپنی پہچان کا ہر نقش یقیں کھوتی ہے دور ان دیکھی سی سرحد ہے کہ جس کے اس پار کوئی بستی ہے جو راتوں کو سدا روتی ہے سطح چادر پہ شکن اور سر بالیں پہ نشیب یہ تو تنہائی ہے بستر ...

    مزید پڑھیے

    ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں

    ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں جس کے باہر انا کے پہرے ہیں شام پنچھی کہاں گزاریں گے شاخ گل پر جلے بسیرے ہیں ہم تو ملبہ ہیں نا شناسی کا ٹوٹے پھوٹے سے چند چہرے ہیں آج بانٹی ہے دھوپ سورج نے اپنے دامن میں کیوں اندھیرے ہیں جال ٹوٹے ملے ہیں ساحل پر کون جانے کہاں مچھیرے ہیں

    مزید پڑھیے

    خود کو جب سے جان گئے ہم

    خود کو جب سے جان گئے ہم دنیا کو پہچان گئے ہم دشمن کو جب پاس سے دیکھا دوست کو بھی پہچان گئے ہم من میں کیسی آگ لگی یہ تن کی چادر تان گئے ہم اس کے دیار شوق سے اکثر خود ہی تہی دامان گئے ہم

    مزید پڑھیے

    در کسی کا کھلا نہیں لگتا

    در کسی کا کھلا نہیں لگتا شہر یہ آشنا نہیں لگتا غم ہے فکر معاش میں ایسا آدمی کا پتا نہیں لگتا دوست جب سے ہوئے ہمارے تم کوئی دشمن برا نہیں لگتا یوں تو ملتے ہیں ٹوٹ کر لیکن ربط وہ دیر پا نہیں لگتا وعدہ حوروں کا بعد مرنے کے بندگی کا صلا نہیں لگتا

    مزید پڑھیے

تمام