اب دھوپ چڑھی دیواروں پر
اب وقت سفر آ پہنچا ہے آ مل بیٹھیں دو چار گھڑی جب پہلے پہل تم آئے تھے آغاز سحر کا میلہ تھا کچھ کرنیں مدھم مدھم تھیں کچھ اجلا اجلا دھندلکا تھا کچھ ایسی امنگیں تھیں دل میں جو سرکش بھی معصوم بھی تھیں کچھ ہستی بولتی نظریں تھیں جو شوخ بھی بے مفہوم بھی تھیں سورج کی ابھرتی کرنیں بھی یوں ...