Rabia Barni

رابعہ برنی

  • 1924

رابعہ برنی کی نظم

    آخر شب کے مہمان

    پھر رات کی لانبی پلکوں پر تخیل کے موتی ڈھلتے ہیں پھر وقت کا افسوں جاگا ہے خوشیوں کے خزانے لٹتے ہیں اور دل کے ضیافت خانے کے ہر گوشے میں شمعیں جلتی ہیں پھولوں سے سجی ہیں محرابیں خوشیوں کی دہکتی منقل سے تنویر کے ہالے بنتے ہیں خوابیدہ دریچے کھلتے ہیں دروازوں کے پردے ہلتے ...

    مزید پڑھیے

    انتظار

    وہ لحن جو صدیوں صدیوں تک انسان کے دل کی دھڑکن تھا اس لحن کا جادو ٹوٹ گیا فردوس کے نغمے خواب الست عقبیٰ کی کہانی نقش کہن کہسار پہ بادل سرگرداں افلاک کے قیدی شمس و قمر تاریخ نوائے پارینہ مذہب کی روایت فرسودہ اخلاق کی قدریں چکنا چور تہذیب کے مندر بوسیدہ فطرت کا سہارا کیا ...

    مزید پڑھیے

    اس بات کا دیکھو دھیان رہے

    تم اکثر کہتے رہتے ہو پھولوں کا کیا ہے کچھ دیر میں مرجھا جاتے ہیں اور یہ راتیں چاندی سی دو دن کی کہانی ہے ان کی لمحوں میں بکھر کر رہ جاتی ہے موتی کی طرح شبنم کی لڑی میں اکثر سوچا کرتی ہوں کیا موسم گل ہی سب کچھ ہے اور خواب بہاراں کچھ بھی نہیں بلور سے ترشی مورت سے الگ کیا عکس نگاراں ...

    مزید پڑھیے

    انفرادیت

    اوروں سے الگ دنیا سے جدا یکتائے زمانہ ہوں گویا آپ اپنی خودی کا مظہر ہوں نقاش ازل کا شہ پارہ جس سوچ میں ڈوبی رہتی ہوں سب لوگ اسے کیا جانیں غم اور خوشی کا پیمانہ اوروں سے ہے یکسر بیگانہ کچھ رنگ مرے محبوب نظر کچھ شعر مرے تسکین جگر کچھ راگ ہیں ایسے جو روح کے بربط پر بجتے ہیں خوابوں ...

    مزید پڑھیے

    ہمدم

    زندگی بوجھ سہی بوجھ کا احساس نہ کر منزلیں دور سہی اس کا تردد بیکار جب قدم عزم سے اٹھیں گے تو رستہ طے ہے اور پھر راہ میں کانٹوں کے سوا نرمیٔ گل بھی تو موجود ہے سبزہ بھی ہے چلتے چلتے یوں ہی عادت بھی ہوئی جاتی ہے تھک گئے ہوں تو یہاں چھاؤں بھی سایہ بھی ہے گرمیٔ مہر ستاتی ہے مگر یوں بھی ...

    مزید پڑھیے