آخر شب کے مہمان
پھر رات کی لانبی پلکوں پر تخیل کے موتی ڈھلتے ہیں پھر وقت کا افسوں جاگا ہے خوشیوں کے خزانے لٹتے ہیں اور دل کے ضیافت خانے کے ہر گوشے میں شمعیں جلتی ہیں پھولوں سے سجی ہیں محرابیں خوشیوں کی دہکتی منقل سے تنویر کے ہالے بنتے ہیں خوابیدہ دریچے کھلتے ہیں دروازوں کے پردے ہلتے ...