انتظار
وہ لحن جو صدیوں صدیوں تک
انسان کے دل کی دھڑکن تھا
اس لحن کا جادو ٹوٹ گیا
فردوس کے نغمے خواب الست
عقبیٰ کی کہانی نقش کہن
کہسار پہ بادل سرگرداں
افلاک کے قیدی شمس و قمر
تاریخ نوائے پارینہ
مذہب کی روایت فرسودہ
اخلاق کی قدریں چکنا چور
تہذیب کے مندر بوسیدہ
فطرت کا سہارا کیا چھوٹا
ہر رشتۂ ماضی چھوٹ گیا
سنسان گزر گاہوں پر
اب موت کا ڈمرو بجتا ہے
دھرتی کا مسافر بے چارہ
حیران و پریشاں سحر زدہ
منزل کی طلب میں آوارہ
سجدے کے لئے پتھر بھی نہیں
آنسو کے لئے دامن تو کجا
جینے کے لئے لازم ہے اسے
کچھ تازہ جنوں تخلیق کرے
تسکین جگر پانے کے لئے
رشتوں کی نئی تعمیر کرے
جس پیڑ کا پھل کھایا تھا کبھی
اس پھل کے دام چکانا ہے
گو ہاتھ میں ہے اب لوح و قلم
تحریر کا فن اپنانا ہے
ابواب کتاب ہستی کو
تشکیل کا مقصد پانا ہے