آخر شب کے مہمان

پھر رات کی لانبی پلکوں پر
تخیل کے موتی ڈھلتے ہیں
پھر وقت کا افسوں جاگا ہے
خوشیوں کے خزانے لٹتے ہیں
اور دل کے ضیافت خانے کے
ہر گوشے میں شمعیں جلتی ہیں
پھولوں سے سجی ہیں محرابیں
خوشیوں کی دہکتی منقل سے
تنویر کے ہالے بنتے ہیں
خوابیدہ دریچے کھلتے ہیں
دروازوں کے پردے ہلتے ہیں


مہمانوں کے قدموں کی آہٹ
ہر سمت سنائی دیتی ہے
اس محفل حسن و خوبی میں
میں ان سے مقابل ہوتی ہوں
یہ ہاتھ جو میرے ہاتھ میں ہیں
پھولوں سے زیادہ نازک ہیں
ان زلفوں کے امڈے یا دل میں
مہتاب سا چہرہ روشن ہے
تسلیم کو سر جھکتا ہے کوئی
یا شاخ ہوا سے لچکی ہے
چاندی کے کٹورے بجتے ہیں
یا اس کے لبوں پر جنبش ہے
ان آنکھوں نے مجھ کو دیکھا ہے
یا ٹوٹ کے تارے برسے ہیں


یہ رات جو میرے مہمانوں کا
اس طرح سواگت کرتی ہے
اس رات کے پھیلے دامن پر
میں شکر کے سجدے کرتی ہوں