Qurban Ali Salik Beg

قربان علی سالک بیگ

قربان علی سالک بیگ کی غزل

    وہ زیب‌ شبستاں ہوا چاہتا ہے

    وہ زیب‌ شبستاں ہوا چاہتا ہے یہ مجمع پریشاں ہوا چاہتا ہے بری ہو گئی شہرت کوئے جاناں کوئی خانہ ویراں ہوا چاہتا ہے ترے غم نے سب کام آساں کئے ہیں کہ مرنا بھی آساں ہوا چاہتا ہے چلے آتے ہیں سیر کرتے ہوئے وہ گلستاں گلستاں ہوا چاہتا ہے نہ دیکھا کرو تم کہ اب آئنہ بھی مری چشم حیراں ہوا ...

    مزید پڑھیے

    دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں

    دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں سب کو دیکھے دکھائے بیٹھے ہیں چاک دامن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم دل کے ٹکڑے اڑائے بیٹھے ہیں وہ سر بزم حال کیا پوچھیں میرے مطلب کو پائے بیٹھے ہیں اب اجل کیوں کہ آئے گی دیکھوں وہ عیادت کو آئے بیٹھے ہیں کرتے ہیں یوں دعا کہ ہم گویا ہاتھ اثر سے اٹھائے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    انتہا صبر آزمائی کی

    انتہا صبر آزمائی کی ہے درازی شب جدائی کی ہے برائی نصیب کی کہ مجھے تم سے امید ہے بھلائی کی نقش ہے سنگ آستاں پہ ترے داستاں اپنی جبہ سائی کی تم سے کچھ مل کے خوش ہوا ہوں کہ ہوں دہر میں حسرت آشنائی کی ہے فغاں بعد امتحان فغاں پھر شکایت ہے نارسائی کی کیا نہ کرتا وصال شادیٔ مرگ تم نے ...

    مزید پڑھیے

    دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے

    دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے دل کو جو کوئی تیرا گھر سمجھے اشک خونیں بہے تو ہم دل کو ہدف ناوک نظر سمجھے نالۂ غیر آتش افشاں ہے شب وصلت کی تم سحر سمجھے نہ اٹھا اپنے آستاں سے ہمیں ہم تو بیٹھے ہیں اپنا گھر سمجھے نامہ دے کر نظارہ ہے منظور ہم تقاضائے نامہ بر سمجھے غیر سے پوچھتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جی ہیچ جان ہیچ نہ دل نے جگر عزیز

    جی ہیچ جان ہیچ نہ دل نے جگر عزیز سب سے سوا ہے وصل ترا فتنہ گر عزیز آئی خبر جو اس کی تو جائے گی اپنی جان اب تو برابر اپنے ہوا نامہ بر عزیز لے جائیں اپنی بے ہنروں پاس التجا رکھتے ہیں لوگ اس لیے کسب ہنر عزیز رہنے نہ دے جو وحشت دل ہی تو کیا کروں وہ کون ہے کہ جس کو نہیں اپنا گھر ...

    مزید پڑھیے

    خیال گزرے کہاں کہاں کا ارادہ ان کو ہو گر یہیں کا

    خیال گزرے کہاں کہاں کا ارادہ ان کو ہو گر یہیں کا نہ کچھ ٹھکانا مرے گماں کا نہ کچھ ٹھکانا مرے یقیں کا نہ شوق مجھ کو ہے حور عیں کا نہ پاس واعظ ہے اپنے دیں کا جو ذکر کرنا ہے گر یہیں کا سنا نہ جھگڑا کہیں کہیں کا خراب کوئے بتاں ہے خلقت یہیں سے پاتے ہیں رنج و راحت سپہر گردش میں کر نہ ...

    مزید پڑھیے

    گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا

    گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا وہ دل میں مرے آبلہ ہو گیا سمجھتے ہیں وہ فرض اس کی شکست مرا دل بھی عہد وفا ہو گیا کہوں کیا نہ دیکھیں جو میری طرف تغافل شریک حیا ہو گیا وہ کرتے ہیں سن کر ستم اور بھی مرا نالہ شکر جفا ہو گیا قیامت ہوئی اس کی رفتار سے یہ ہنگامہ ہنگامہ زا ہو گیا بد و نیک کا ان ...

    مزید پڑھیے

    واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب

    واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب پانی کے بدلے پیتے ہیں اے بے خبر شراب آمد میں اس کی مست ہوئے کچھ خبر نہیں ساقی ہے کون جام کہاں اور کدھر شراب اس قلزم گناہ میں ڈوبا ہوا ہوں میں جس میں ہے ایک موجۂ دامان تر شراب مستی میں ان کو لگ گئی لو اور غیر کی دینی شب وصال نہ تھی اس قدر ...

    مزید پڑھیے

    اب تو لب سے نہ جائے گا آگے

    اب تو لب سے نہ جائے گا آگے نالے کا زور شور تھا آگے دشت الفت میں رہنما کیسا میں نے رہبر کو دھر لیا آگے دشت الفت ہے گرچہ دور ولے دل سے کہتا ہوں یہ رہا آگے بے وفائی اگر نہ کرتی عمر ہم دکھاتے تمہیں وفا آگے وہ خوشامد ہی میں گئے گھبرا مجھ کو کہنا تھا مدعا آگے دیکھنا جو نہ تھا سو دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    ہزار وعدے کیے ہیں تم نے کبھی کسی کو وفا نہ کرنا

    ہزار وعدے کیے ہیں تم نے کبھی کسی کو وفا نہ کرنا چلو اسی پر جو غیر کہہ دیں کہیں ہمارا کہا نہ کرنا اگر نہ سنتے ہو بات میری تو صبر آ جائے جی کو میرے ستم ہے ان کو خموش رہنا غضب ہے سن کر سنا نہ کرنا خوشی ہے ان کو یہ جانتا ہوں مگر میں رکھنے کو بات اپنی کہوں یہ ان سے کہ بعد مردن تم آ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4