قیصر خالد کی غزل

    آئنہ ہوں کہ میں پتھر ہوں یہ کب پوچھے ہے

    آئنہ ہوں کہ میں پتھر ہوں یہ کب پوچھے ہے زیست مجھ سے میرے جینے کا سبب پوچھے ہے منکشف ہونے لگے جب سے رموز و اسرار کچھ سوال اب دل معصوم عجب پوچھے ہے مقصد زیست، کوئی خواب یا خواہش کوئی؟ ہم نے جب سی لئے لب اپنے وہ تب پوچھے ہے ہر کوئی اپنی تگ و دو میں ہے مصروف یہاں کون اب کس کی اداسی کا ...

    مزید پڑھیے

    ہر موج حوادث رکھتی ہے سینے میں بھنور کچھ پنہاں بھی

    ہر موج حوادث رکھتی ہے سینے میں بھنور کچھ پنہاں بھی رہتے ہیں مقابل ہی اکثر اشکال بھی دل میں ایماں بھی شہروں کی چمک نے آنکھوں کو دکھلائے وہ منظر جن کے لئے قدروں کا تغیر کیا کہیے چھوڑ آئے زمینیں دہقاں بھی ہر سمت لرزتی چیخیں ہیں جلتے ہوئے غنچوں، کلیوں کی پوچھے ہے زمین گل ہم سے کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہجر و وصال کے نئے منظر بھی آئیں گے

    ہجر و وصال کے نئے منظر بھی آئیں گے آبادیوں میں آئے تو پھر گھر بھی آئیں گے آساں نہیں ہے اتنی تلاش جہان نو ڈھونڈو گے گر جزیرے سمندر بھی آئیں گے اے وقت ڈر ہے تیرے خداؤں کو بس یہی بے ننگ و نام ہیں جو برابر بھی آئیں گے دنیا اسی کا نام ہے ہر سمت ہی یہاں بن کر یقیں گمان کے محور بھی آئیں ...

    مزید پڑھیے

    کیا عہد نو میں اپنی پہچان دیکھتا ہوں

    کیا عہد نو میں اپنی پہچان دیکھتا ہوں اکثر بہ شکل انساں حیوان دیکھتا ہوں خوابوں کو، جستجو کو، رکھنا ابھی سفر میں کچھ دور چل کے راہیں آسان دیکھتا ہوں رفتار وقت تو نے پائی ہے کیسی عجلت جذبوں میں عصر نو کے ہیجان دیکھتا ہوں آئی ہے خاک ہستی اٹھ کر کہاں سے اپنی خوابوں میں کچھ جزیرے ...

    مزید پڑھیے

    لبوں کو کھول تو کیسا بھی ہو جواب تو دے

    لبوں کو کھول تو کیسا بھی ہو جواب تو دے نہ بانٹ سود و زیاں کو مگر حساب تو دے وفا، خلوص و محبت کو پھر سمجھنا ہے کہاں لکھے ہیں یہ الفاظ تو کتاب تو دے اب اس طرح بھی روایت سے انحراف نہ کر بدل اگرچہ تو اچھا نہ دے، خراب تو دے یہ کیا کہ اپنی ہی رفتار پر ہے وہ نازاں کسی کے رینگتے قدموں کو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی یہی پہچان، یہی اپنا پتا ہے

    اپنی یہی پہچان، یہی اپنا پتا ہے اک عمر سے یہ سر کسی چوکھٹ پہ جھکا ہے یوں سحر تخاطب ہے ہر اک سمت کہ فی العصر کھلتا ہی نہیں کون یہاں کس کا خدا ہے دروازہ نہیں، بیچ میں دیوار ہے اپنے اور دستک دیوار سے در کم ہی کھلا ہے جب جب دل نازک پہ پڑی چوٹ کوئی بھی کچھ دن تو دھواں دل سے ہر اک لمحہ ...

    مزید پڑھیے

    حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

    حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی چشم افسردگیٔ خشک ہی دریا نکلی سو بہ سو بھٹکے نگاہوں میں لیے اس کی سی ایک صورت بھی کسی در نہ دریچہ نکلی ہم کہ موہوم سی حسرت بھی لیے پھرتے ہیں کتنے ہیں جن کی ہر اک خواہش بے جا نکلی اک ذرا ٹھیس لگی ٹوٹ گئی ہمت جاں آہنی جس کو سمجھتے تھے وہ شیشہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نئے ہیں نہ ہے یہ کہانی نئی

    ہم نئے ہیں نہ ہے یہ کہانی نئی ساتھ شرطوں کے ہے زندگانی نئی کیا گنوا کر ملی بحث یہ ہے فضول آخرش مل گئی کامرانی نئی بد مزاجی پہ موسم کی حیران ہوں کیوں ہے دریاؤں میں یہ روانی نئی چشم پوشی مسائل کی ہے اس طرح اس نے باتوں سے کی گل فشانی نئی گامزن دل سفر پر تو ساکت قدم چھیڑ دی پھر ...

    مزید پڑھیے

    کہسار تو کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے

    کہسار تو کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے اپنی تلاش میں نئے منظر بھی آئیں گے پامال راستوں سے بغاوت نہیں گناہ قدریں نئی ہیں تو نئے رہبر بھی آئیں گے صورت میں رنگ و نور کی، پھولوں کی، ہم کہیں لوح جہاں پہ حرف مکرر بھی آئیں گے نازک مزاج دیتے ہیں ہر لمحہ امتحاں شیشوں سے جسم کے لئے پتھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    جاں یوں لباس جسم کو نکلی اتار کر

    جاں یوں لباس جسم کو نکلی اتار کر جیسے کوئی سرائے میں اک شب گزار کر حالات نے لباس تو میلا کیا مگر کردار پھر بھی رکھا ہے ہم نے سنوار کر معیار آج کل تو بڑائی کا ہے یہی اپنی ہر ایک بات کو تو اشتہار کر گر ہو سکے تو دے انہیں امید کی کرن بیٹھے ہوں زندگانی سے اپنی جو ہار کر دنیا بہت بڑی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3