ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے
ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے سہمے سہمے سے ہی بس غبار دیکھتے رہے شہرتیں، یہ دولتیں، یہ مسندیں، ملیں پہ ہم بے نیاز ہی رہے، ہزار دیکھتے رہے آخرش زمانہ ان کو چھوڑ آگے بڑھ گیا ہر قدم جو عزت و وقار دیکھتے رہے ان کو پھر اماں کہاں نصیب ہونی تھی، کہ جو ہر مقام سے رہ فرار دیکھتے ...