کیا عہد نو میں اپنی پہچان دیکھتا ہوں

کیا عہد نو میں اپنی پہچان دیکھتا ہوں
اکثر بہ شکل انساں حیوان دیکھتا ہوں


خوابوں کو، جستجو کو، رکھنا ابھی سفر میں
کچھ دور چل کے راہیں آسان دیکھتا ہوں


رفتار وقت تو نے پائی ہے کیسی عجلت
جذبوں میں عصر نو کے ہیجان دیکھتا ہوں


آئی ہے خاک ہستی اٹھ کر کہاں سے اپنی
خوابوں میں کچھ جزیرے انجان دیکھتا ہوں


امن و اماں کی باتیں شاید ہیں صرف باتیں
ارض خدا پہ ہر دن گھمسان دیکھتا ہوں


جب جستجو نہ منزل اور خواب ہیں نہ ارماں
پھر کس لیے سفر کا سامان دیکھتا ہوں


تبدیل ہو گئی ہیں اقدار کہنہ یوں بھی
یہ کائنات ساری حیران دیکھتا ہوں


میری نگاہ آخر حساس کیوں ہے اتنی
میں روز و شب بدلتے انسان دیکھتا ہوں


دیتی ہے جب بھی فرصت کچھ گردش زمانہ
رشتوں میں اپنی باقی پہچان دیکھتا ہوں


گزرے تھے جس میں لمحہ بچپن کے قہقہوں میں
خوابوں میں وہ حویلی ویران دیکھتا ہوں