Qazi Mustaqiimuddiin Sahar

قاضی مستقیم الدین سحر

  • 1927

قاضی مستقیم الدین سحر کی غزل

    ترا دست ستم ہے اور میں ہوں

    ترا دست ستم ہے اور میں ہوں مرا چھوٹا سا دم ہے اور میں ہوں یہ دنیا ہے الم ہے اور میں ہوں تری تیغ ستم ہے اور میں ہوں مرے اپنے نہیں ہیں آج اپنے یہی تو ایک غم ہے اور میں ہوں خدا جانے کہاں لے جائے وحشت ترا نقش قدم ہے اور میں ہوں مجھے منظور ہے ہر بات تیری سر تسلیم خم ہے اور میں ...

    مزید پڑھیے

    ان سے شکوہ بھی ہے شکایت بھی

    ان سے شکوہ بھی ہے شکایت بھی باوجود اس کے ان سے الفت بھی کیا صلہ دے گئی محبت بھی چاک داماں ہے زور وحشت بھی کوئی تم سا نظر نہیں آتا لاکھوں دیکھے ہیں خوب صورت بھی آرزو تھی کہ دیکھتے جلوہ رہ گئی دل کی دل میں حسرت بھی یہ زمانہ عجب زمانہ ہے شرم رخصت ہوئی ہے غیرت بھی اب منائیں تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    بزم سخن ہے اور سخنداں نئے نئے

    بزم سخن ہے اور سخنداں نئے نئے محفل میں آج آئے ہیں مہماں نئے نئے کن منزلوں کی تاک میں یہ کاروان زیست راہیں نئی نئی ہیں گلستاں نئے نئے بالکل غلط ہے کون یہ کہتا ہے وجد میں ملتے نہیں جنوں کو بیاباں نئے نئے ساقی ذرا نظر تو اٹھا دیکھ بزم میں پینے کو آج آئے ہیں مہماں نئے نئے جب تک ہے ...

    مزید پڑھیے