ان سے شکوہ بھی ہے شکایت بھی

ان سے شکوہ بھی ہے شکایت بھی
باوجود اس کے ان سے الفت بھی


کیا صلہ دے گئی محبت بھی
چاک داماں ہے زور وحشت بھی


کوئی تم سا نظر نہیں آتا
لاکھوں دیکھے ہیں خوب صورت بھی


آرزو تھی کہ دیکھتے جلوہ
رہ گئی دل کی دل میں حسرت بھی


یہ زمانہ عجب زمانہ ہے
شرم رخصت ہوئی ہے غیرت بھی


اب منائیں تو کیا منائیں اسے
ہم سے روٹھی ہوئی ہے قسمت بھی


اس محبت کے گیت گاتے ہو
کھو چکی ہے جو قدر و قیمت بھی


اب ملاقات ہو تو کیوں ہو سحرؔ
آپ کرتے نہیں ہیں زحمت بھی