Qayyum Nazar

قیوم نظر

قیوم نظر کی غزل

    چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں

    چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں دریغا سرو ابھی تک پا بہ گل ہیں اٹھے ہیں لالۂ خونیں کفن پھر یہی شعلے جہان مستقل ہیں اگر دو گام پر منزل ہے پھر کیوں چٹانیں زندگی کی منفعل ہیں گلوں پر بے دلی کا رنگ کیوں ہے عنادل صحن‌ گلشن میں خجل ہیں رفو ہو جائیں گے چاک بہاراں خزاں کے گھاؤ دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    ان کی جب نکتہ وری یاد آئی

    ان کی جب نکتہ وری یاد آئی اپنی ہی بے خبری یاد آئی یاد آئی بھی تو یوں عہد وفا آہ کی بے اثری یاد آئی آج کیوں ان کو بہ آغوش رقیب میری ہی ہم عصری یاد آئی دل نے پھر وقت سے لڑنا چاہا پھر وہی درد بھری یاد آئی اپنا سینہ ہوا روشن تو انہیں حسن کی کم نظری یاد آئی جب بھی دھیان آیا کہیں منزل ...

    مزید پڑھیے

    خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو

    خواہشوں کی موت کا یارو بھلا چاہا کرو پھیلتی تاریکیوں میں چاند کا چرچا کرو بے محابا جم ہی جائیں درد کی جب محفلیں اپنے غم کو شہر بخت نارسا سمجھا کرو لہلہاتی وادیوں سے خوب تر ہیں ریگ زار دل کے صحرا میں گلستاں کی فضا پیدا کرو رنج کی گہرائیوں کی تہہ کو پانے کے لیے دوستوں کی دشمنی ...

    مزید پڑھیے

    آپ کیوں چھیڑتے ہیں دیپک راگ

    آپ کیوں چھیڑتے ہیں دیپک راگ شہر میں لگ رہی ہے خود ہی آگ اٹھ رہا ہے حریم دل سے دھواں لٹ رہا ہے سہاگنوں کا سہاگ شعلہ ساماں ہوئی ہے تاریکی کیسے جاگے ہیں روشنی کے بھاگ جانے کس کس ہوس کو دیں گے جنم بوتلوں کے اڑا چکے جو کاگ لاگ میں تھی کبھی لگاؤ کی شان اب لبوں میں لگاؤ کی ہے لاگ کف ...

    مزید پڑھیے

    جائیں گھڑ دوڑ پر کہ کھیلیں تاش

    جائیں گھڑ دوڑ پر کہ کھیلیں تاش میرؔ جی راز عشق ہوگا فاش پتھروں میں لگا رہے ہیں جونک چاند میں خون گرم کی ہے تلاش یوں جھگڑتے ہیں جھوٹی قدروں پر زن فاحش پہ جس طرح اوباش نئے انداز سے حنوط ہوئی اب نہ بو دے گی زندگی کی لاش اڑ گیا بھاپ بن کے دل کا لہو اب زمیں دور ہے قریب آکاش ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہاں مجھ پہ جفا کرتا تھا

    وہ کہاں مجھ پہ جفا کرتا تھا جو مقدر تھا ملا کرتا تھا آج شرماتا ہے سورج اس سے وہ جو تاروں سے حیا کرتا تھا سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے سامنے اس کے میں کیا کرتا تھا میں پڑا رہتا تھا افتادگی سے جادۂ شوق چلا کرتا تھا یاد آیا ہے کہ خوش باشی کو غم کا افشردہ پیا کرتا تھا گرد رہ بن کے جو ...

    مزید پڑھیے

    دھندلا دیا زیست کا تصور (ردیف .. ے)

    دھندلا دیا زیست کا تصور اپنی آنکھوں ہی کی نمی نے حیوان صفت ہوا ہے آخر دکھلایا کمال آدمی نے کی دوستی بھی تو دشمنی سے جانا نہ انہیں مگر ہمیں نے گاڑھے کی تو کھال کھینچ ڈالی رات ان کے جمال ریشمیں نے شعلوں سے بجھائی پیاس جی کی یاروں کے مزاج بلغمیں نے یہ زہرہ یہ مشتری یہ مہتاب کیا ...

    مزید پڑھیے

    تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا

    تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا دل زندگی سے بار دگر آشنا ہوا اک اک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا دیکھا تجھے تو آرزوؤں کا ہجوم تھا پایا تجھے تو کچھ نہ تھا باقی رہا ہوا دشت جنوں میں ریگ رواں سے خبر ملی پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈھتا ...

    مزید پڑھیے

    شہر میں رنگ ہے نہ خوشبو ہے

    شہر میں رنگ ہے نہ خوشبو ہے پھر بھی چرچا اسی کا ہر سو ہے بہہ رہا ہے مہیب سناٹا پا بہ گل سبزۂ لب جو ہے گھپ اندھیرے کا جل رہا ہے چراغ روشنی کا عجیب جادو ہے بے دلی ہے نصیب دام خیال آرزو اک رمیدہ آہو ہے سینۂ سنگ پر ٹھٹھرتا ہوا شاخ گل کا گداز پہلو ہے شدت کرب سے نڈھال نہیں آنکھ میں جم ...

    مزید پڑھیے

    سیر شکمی کا بھوک سے ہے ملاپ

    سیر شکمی کا بھوک سے ہے ملاپ روح کی تشنگی سنبھالیے آپ رقص فرما ہوئی وہ سیم تنی بے زری کی بہار نے دی تھاپ شہر والے ہیں کھولتا لاوا گلی کوچوں سے اٹھ رہی ہے بھاپ نا مرادی کے بڑھتے سلسلے کو نئے پیمانہ ستم سے ناپ اس کو نمرود کا تقاضا جان آتش حسن کو نہ بیٹھ کے تاپ خامشی تو علاج درد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2