چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں
چناریں وادیوں میں مشتعل ہیں دریغا سرو ابھی تک پا بہ گل ہیں اٹھے ہیں لالۂ خونیں کفن پھر یہی شعلے جہان مستقل ہیں اگر دو گام پر منزل ہے پھر کیوں چٹانیں زندگی کی منفعل ہیں گلوں پر بے دلی کا رنگ کیوں ہے عنادل صحن گلشن میں خجل ہیں رفو ہو جائیں گے چاک بہاراں خزاں کے گھاؤ دیکھو ...