قاسم یعقوب کی نظم

    چہرے کی گرد

    گاڑیوں کے بہاؤ میں بہتے ہوئے شور کی گرد میرے دھواں بنتے چہرے پہ جمنے لگی ہے میں پہلے ہی جمتے ہوئے خون کی گلتی سڑتی ہوئی خواہشوں کی کراہت سے سانسوں کی قے کرنے کی ایک سعی مسلسل میں مصروف ہوں میرا دل تتلیوں کی رفاقت کی ضد کر رہا ہے مگر میں اسے ہڈیوں سے تنے جال سے کیسے باہر نکالوں کڑی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی

    کبھی کبھی جی کرتا ہے دور فلک تک اڑتا جاؤں چاند کی دودھیا بھیڑ کو ذبح کر آؤں اپنے ناخن کی دھار سے گھنے پہاڑوں کو چیر آؤں اتنی زور سے چیخوں ساری خوشبو دار ہوائیں دور تلک لڑھکیں اور مر جائیں کبھی کبھی جی کرتا ہے خاموش رہوں اپنے باطن کی تنہائی میں آ کر چپ کے دو آنسو رو لوں

    مزید پڑھیے

    بدن کا نوحہ

    میں نے کل ایک خواب دیکھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں میری نیند میرے جسم کے اندر رہ رہی ہے مجھ تک منتقل نہیں ہو پا رہی آنکھوں میں بصارت ہے مگر مجھے دکھائی نہیں دے رہا میں چلتا ہوں مگر پاؤں حرکت نہیں کر پاتے گھٹن کے مارے سانس لیتا ہوں تو ریت منہ سے نکلتی ہے میں خواب سے بے دار ہو جاتا ...

    مزید پڑھیے

    دھند سے لپٹا راستہ

    میرے اندر مرے آگے پیچھے بھی میں ہوں زمانوں کے سایوں کی وسعت سمیٹے مرا دائرہ اپنے امکان کی حد پہ نوحہ کناں ہے جہاں دھند کے ساتھ بہتی ہوئی موت اب ایک جنگل بنائے کھڑی ہے مری آنکھ میں منجمد خوف تحلیل ہونے کو تیار ہے یہ وہ لمحہ ہے جس کی گواہی کی نمکینی میرا حلال بدن ہے مگر کیا یہ میرے ...

    مزید پڑھیے

    ایک کتبے کی تلاش میں

    ہواؤں کے تعاقب میں میں اک تتلی سے ٹکرا کے زمیں پر گر پڑا ہوں پروں کی گدگداہٹ سے مرے ماتھے سے خوں بہنے لگا ہے مجھے یکسانیت سے خوف آتا ہے زیادہ دیر اک ہی کیفیت میں زندہ رہنا کتنا مشکل ہے پرانے موسموں کی نوحہ خوانی میں نئے موسم کی خواہش پیدا ہوتی ہے میں اپنے حلق کے اندر کنواں تعمیر ...

    مزید پڑھیے

    میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں

    کہاں ہیں آنکھیں میں جن میں تیرہ شبی کا تریاق آسماں پر کھلے ستاروں میں ڈھونڈتا تھا میں دیکھتا تھا جو حد ادراک میں نہیں تھا جو دور ہو کر بھی میرے معروض میں کہیں تھا میں اپنی پوروں سے پورا چہرہ ٹٹول کے خود سے پوچھتا ہوں کہاں ہیں ہونٹوں کے سرخ کونے کسی کے رخسار کی اماوس کی رات میں ...

    مزید پڑھیے

    بوڑھا وقت ہمارا استقبال کرتا ہے

    عرشۂ خاک سے، میں نے ہاتھوں میں مٹی بھری اور ہوا میں اچھالی بہت دور تک خاک اڑتی گئی دیر تک میں نے بے معنی نظارے کو کائناتی حوالوں سے ماپا کبھی طول اور عرض میں اس کو رکھا ابھرے پپوٹوں، کبھی بند آنکھوں سے دیکھا! وہ سوچا جو دیکھا نہیں جا سکا! ہوا خاک تھی یا ہوا میں تھی خاک۔۔۔! گرد کی ...

    مزید پڑھیے

    میں نظم لکھتا ہوں!

    میں جب تخلیق کا جگنو پکڑتا ہوں میں جب اندر اندھیرے میں گندھی مٹی کا پانی روشنی کی بوند کی خواہش جگاتا ہے کیمیائی خواب کتنے اہتمام انگیز ہوتے ہیں بھٹکتی خوشبوؤں کو جمع کرتے ہیں پہاڑوں پر پڑی بینائیوں کی وسعتوں کو جوڑ کر ترتیب سے رکھتے ہیں اور آنکھیں بناتے ہیں پھر ان میں آنسوؤں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی اپنا فیصلہ خود لکھے گی

    ہم اپنی برہنگی چھپاتے پھرتے ہیں ایسی حالت میں تعارف کا فلسفہ دیوانگی میں بڑبڑانا ہوتا ہے بکھری چیزوں کے انبار میں کس کس کا رتبہ یاد رکھتے ہم نے مرضی کی ترتیب بنا لی خوشبو کا اہتمام کہاں سے کرتے بدبو ہمیں زیادہ پر تپاکی سے ملی ہم اپنے ہی جسموں کو چھو کر خوش ہو جانے والے سڑاند دیتی ...

    مزید پڑھیے

    خواب کدوں سے واپسی

    اے میرے بدن سے لپٹی ہجرت کی سرشاری! خواہش کی بے سمت جہت کے کہنے میں مت آ میرے بازوؤں میں قوت تو ہے جو سوکھے سمندر میں تیرتی کشتی کے پتوار میں اتری ہے لیکن میری ٹانگوں میں حرکت کے کوڈز مسلسل مرتے جاتے ہیں گونج ایک بہاؤ میں میری جانب بڑھتی ہے اور خاموشی۔۔۔ چہرے کے خال و خط سے نوچ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2