قمر اقبال کی غزل

    ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں

    ایک دیوار اگر ہو تو یہاں سر ماریں ایک دیوار کے پیچھے ہیں کئی دیواریں ہم کو لوٹا دے ہمارا وہ پرانا چہرہ زندگی تیرے لیے روپ کہاں تک دھاریں پاس کچھ اپنے بچا ہے تو یہی اک لمحہ آخری داؤ ہے جیتیں کہ یہ بازی ہاریں تم کبھی آگ میں پل بھر تو اتر کے دیکھو کون کہتا ہے کہ شعلوں میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خود کی خاطر نہ زمانے کے لیے زندہ ہوں

    خود کی خاطر نہ زمانے کے لیے زندہ ہوں قرض مٹی کا چکانے کے لیے زندہ ہوں کس کو فرصت جو مری بات سنے زخم گنے خاک ہوں خاک اڑانے کے لیے زندہ ہوں لوگ جینے کے غرض مند بہت ہیں لیکن میں مسیحا کو بچانے کے لیے زندہ ہوں روح آوارہ نہ بھٹکے یہ کسی کی خاطر سارے رشتوں کو بھلانے کے لیے زندہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2