قمر اقبال کی غزل

    سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا

    سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہوگا خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہوگا جس کا نقشہ ہے مرے ذہن میں اک مدت سے گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہوگا میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے اب لہو میں مرے پیدا وہ بھنور ...

    مزید پڑھیے

    یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے

    یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے اپنے ہی کان اپنی صدا کو ترس گئے تھے کیا عجیب لوگ کہ جینے کے شوق میں آب حیات پی کے ہوا کو ترس گئے کچھ روز کے لیے جو کیا ہم نے ترک شہر باشندگان شہر جفا کو ترس گئے مردہ ادب کو دی ہے نئی زندگی مگر بیمار خود پڑے تو دوا کو ترس گئے خالی جو اپنا جسم لہو ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں

    بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں سفر میں جیسے کوئی اپنے ساتھ تھا ہی نہیں کسی سے ربط بڑھائیں تو مت خفا ہونا کہ دل میں اب تری یادوں کا سلسلہ ہی نہیں سب اپنے اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں کسی کا جیسے زمانے میں اب خدا ہی نہیں اک عمر کٹ گئی کاغذ سیاہ کرتے ہوئے قلم کو اپنے جو لکھنا ...

    مزید پڑھیے

    جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں

    جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں چہرے بدل بدل کے پریشان میں بھی ہوں جھونکا ہوا کا چپکے سے کانوں میں کہہ گیا اک کانپتے دیے کا نگہبان میں بھی ہوں انکار اب تجھے بھی ہے میری شناخت سے لیکن نہ بھول یہ تری پہچان میں بھی ہوں آنکھوں میں منظروں کو جب آباد کر لیا دل نے کیا یہ طنز کہ ...

    مزید پڑھیے

    دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا

    دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا موند لی جب آنکھ تو سینے سے کوئی آ لگا کس قدر اپنائیت اس اجنبی بستی میں تھی گو کہ ہر چہرہ تھا بیگانہ مگر اپنا لگا پاس سے ہو کر جو وہ جاتا تو خوش ہوتے مگر اس کا کترا کر گزرنا بھی ہمیں اچھا لگا اس گھڑی کیا کیفیت دل کی تھی کچھ ہم بھی سنیں تو نے پہلی ...

    مزید پڑھیے

    جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی

    جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی وہ بات کرتا تو کچھ اس سے بولتے ہم بھی ہوا کو کس نے چھوا ہے جو تجھ کو چھو پاتے خلا میں پھرتے ہیں رستہ ٹٹولتے ہم بھی کہاں پہ ٹھہریں کہ مانند برگ آوارہ ہوا کے دوش پہ پھرتے ہیں ڈولتے ہم بھی اندھیرا شہر کی گلیوں کا گھر میں در آتا ذرا جو رات کو ...

    مزید پڑھیے

    کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے

    کہیں یہ درد کا دھاگا بھی یوں سلجھتا ہے گرہ جو کھولیں تو دل اور بھی الجھتا ہے وہ ایک بات جو دل میں ہے میرے اس کے لیے زباں سے کہتا نہیں وہ مگر سمجھتا ہے میں تیری آنکھوں کی یہ پیاس کس طرح دیکھوں مرے وجود میں بادل کوئی گرجتا ہے عجیب چیز ہے یہ خوبی خطوط بدن کوئی لباس ہو اس کے بدن پہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر خوشی مقبروں پہ لکھ دی ہے

    ہر خوشی مقبروں پہ لکھ دی ہے اور اداسی گھروں پہ لکھ دی ہے ایک آیت سی دست قدرت نے تتلیوں کے پروں پہ لکھ دی ہے جالیوں کو تراش کر کس نے ہر دعا پتھروں پہ لکھ دی ہے لوگ یوں سر چھپائے پھرتے ہیں جیسے قیمت سروں پہ لکھ دی ہے ہر ورق پر ہیں کتنے رنگ قمرؔ ہر غزل منظروں پہ لکھ دی ہے

    مزید پڑھیے

    ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے

    ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے لڑکی ہے کہ ترشے ہوئے ہیروں کی لڑی ہے سونے کا یہ انداز ہے خفگی کی علامت چہرہ کئے دیوار کی جانب وہ پڑی ہے کہرے میں گھری شام کی ڈولی سے اتر کر تنہائی کی چوکھٹ پہ تری یار کھڑی ہے دل عمر کے قانون کا قائل نہیں ورنہ احساس اسے بھی ہے کہ وہ مجھ سے بڑی ...

    مزید پڑھیے

    یاد موسم وہ پرانے آئے

    یاد موسم وہ پرانے آئے زخم ہنسنے کے زمانے آئے دل کی دہلیز پہ یادوں کے سوا کون آواز لگانے آئے اب کہاں تاب لہو رونے کی اب نہ وہ خواب دکھانے آئے لوگ جیتے ہیں لہو پی کے یہاں ہم کہاں پیاس بجھانے آئے کہہ گئے بات جو سچ تھی ورنہ یاد کتنے ہی بہانے آئے ہر غزل میں ہے چھپا وہ چہرہ کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2