سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا
سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہوگا خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہوگا جس کا نقشہ ہے مرے ذہن میں اک مدت سے گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہوگا میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے اب لہو میں مرے پیدا وہ بھنور ...