قمر اقبال کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا

    سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہوگا خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہوگا جس کا نقشہ ہے مرے ذہن میں اک مدت سے گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہوگا میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے اب لہو میں مرے پیدا وہ بھنور ...

    مزید پڑھیے

    یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے

    یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے اپنے ہی کان اپنی صدا کو ترس گئے تھے کیا عجیب لوگ کہ جینے کے شوق میں آب حیات پی کے ہوا کو ترس گئے کچھ روز کے لیے جو کیا ہم نے ترک شہر باشندگان شہر جفا کو ترس گئے مردہ ادب کو دی ہے نئی زندگی مگر بیمار خود پڑے تو دوا کو ترس گئے خالی جو اپنا جسم لہو ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں

    بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں سفر میں جیسے کوئی اپنے ساتھ تھا ہی نہیں کسی سے ربط بڑھائیں تو مت خفا ہونا کہ دل میں اب تری یادوں کا سلسلہ ہی نہیں سب اپنے اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں کسی کا جیسے زمانے میں اب خدا ہی نہیں اک عمر کٹ گئی کاغذ سیاہ کرتے ہوئے قلم کو اپنے جو لکھنا ...

    مزید پڑھیے

    جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں

    جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں چہرے بدل بدل کے پریشان میں بھی ہوں جھونکا ہوا کا چپکے سے کانوں میں کہہ گیا اک کانپتے دیے کا نگہبان میں بھی ہوں انکار اب تجھے بھی ہے میری شناخت سے لیکن نہ بھول یہ تری پہچان میں بھی ہوں آنکھوں میں منظروں کو جب آباد کر لیا دل نے کیا یہ طنز کہ ...

    مزید پڑھیے

    دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا

    دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا موند لی جب آنکھ تو سینے سے کوئی آ لگا کس قدر اپنائیت اس اجنبی بستی میں تھی گو کہ ہر چہرہ تھا بیگانہ مگر اپنا لگا پاس سے ہو کر جو وہ جاتا تو خوش ہوتے مگر اس کا کترا کر گزرنا بھی ہمیں اچھا لگا اس گھڑی کیا کیفیت دل کی تھی کچھ ہم بھی سنیں تو نے پہلی ...

    مزید پڑھیے

تمام