Qaisarul Jafri

قیصر الجعفری

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

Famous for his ghazal "Divaron se mil kar rona achcha lagta hai".

قیصر الجعفری کی غزل

    دل کی آگ کہاں لے جاتے جلتی بجھتی چھوڑ چلے

    دل کی آگ کہاں لے جاتے جلتی بجھتی چھوڑ چلے بنجاروں سے ڈرنے والو لو ہم اپنی بستی چھوڑ چلے آگے آگے چیخ رہا ہے صحرا کا اک زرد سفر دریا جانے ساحل جانے ہم تو کشتی چھوڑ چلے مٹی کے انبار کے نیچے ڈوب گیا مستقبل بھی دیواروں نے دیکھا ہوگا بچے تختی چھوڑ چلے دنیا رکھے چاہے پھینکے یہ ہے پڑی ...

    مزید پڑھیے

    دل بے تب و تاب ہو گیا ہے

    دل بے تب و تاب ہو گیا ہے آئینہ خراب ہو گیا ہے ہر شخص ہے اشتہار اپنا ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے ہر سانس سے آ رہی ہیں لپکیں ہر لمحہ عذاب ہو گیا ہے جس دن سے بنے ہو تم مسیحا حال اور خراب ہو گیا ہے ہونٹوں پہ کھلا ہوا تبسم زخموں کی نقاب ہو گیا ہے سوچا تھا تو عشق تھا حقیقت دیکھا ہے تو خواب ...

    مزید پڑھیے

    یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں

    یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو بول سکتا ہوں مگر ہونٹ سیے بیٹھا ہوں لوگ بھی اب مرے دروازے پہ کم آتے ہیں میں بھی کچھ سوچ کے زنجیر دیے ...

    مزید پڑھیے

    تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا

    تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا پھر اس کے بعد نہ آنا ہوا نہ جانا ہوا کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا مرے خلوص کی صیقل گری بھی ہار گئی وہ جانے کون سا پتھر تھا آئینہ ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن کم نہیں ہوتی

    ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن کم نہیں ہوتی اب رو کے بھی آنکھوں کی جلن کم نہیں ہوتی کتنے بھی گھنیرے ہوں تری زلف کے سائے اک رات میں صدیوں کی تھکن کم نہیں ہوتی ہونٹوں سے پئیں چاہے نگاہوں سے چرائیں ظالم تری خوشبوئے بدن کم نہیں ہوتی ملنا ہے تو مل جاؤ یہیں حشر میں کیا ہے اک عمر مرے وعدہ ...

    مزید پڑھیے

    تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا

    تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا جاؤ اب یوں بھی تعلق نہیں توڑا جاتا دل کا احوال نہ پوچھو کہ بہت روز ہوئے اس خرابے کی طرف میں نہیں آتا جاتا تشنگی نے کبھی دریاؤں سے ملنے نہ دیا ہم جدھر جاتے اسی راہ میں صحرا جاتا زندگی! رہنے بھی دے سوچ کی حد ہوتی ہے اتنا سوچا ہے کہ صدیوں میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    مایوسی کی برف پڑی تھی لیکن موسم سرد نہ تھا

    مایوسی کی برف پڑی تھی لیکن موسم سرد نہ تھا آج سے پہلے دل میں یارو! اتنا ٹھنڈا درد نہ تھا تنہائی کی بوجھل راتیں پہلے بھی تو برسی تھیں زخم نہیں تھے اتنے قاتل غم اتنا بے درد نہ تھا پھرتے ہیں اب رسوا ہوتے کل تک یہ رفتار نہ تھی شہر میں تھیں سو کوئے ملامت دل آوارہ گرد نہ تھا مرنے پر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تنہائی کی پلکوں کو بھگو لوں پہلے

    اپنی تنہائی کی پلکوں کو بھگو لوں پہلے پھر غزل تجھ پہ لکھوں بیٹھ کے رو لوں پہلے خواب کے ساتھ کہیں کھو نہ گئی ہو آنکھیں جب اٹھوں سو کے تو چہرے کو ٹٹولوں پہلے میرے خوابوں کو ہے موسم پہ بھروسہ کتنا بعد میں پھول کھلیں ہار پرو لوں پہلے دیکھنا ہے وہ خفا رہتا ہے مجھ سے کب تک میں نے سوچا ...

    مزید پڑھیے

    دشت تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی

    دشت تنہائی میں کل رات ہوا کیسی تھی دیر تک ٹوٹتے لمحوں کی صدا کیسی تھی زندگی نے مرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک عمر بھر سر سے نہ اتری یہ بلا کیسی تھی سنتے رہتے تھے محبت کے فسانے کیا کیا بوند بھر دل پہ نہ برسی یہ گھٹا کیسی تھی کیا ملا فیصلۂ ترک تعلق کر کے تم جو بچھڑے تھے تو ہونٹوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر مرے سر پہ کڑی دھوپ کی بوچھار گری

    پھر مرے سر پہ کڑی دھوپ کی بوچھار گری میں جہاں جا کے چھپا تھا وہیں دیوار گری لوگ قسطوں میں مجھے قتل کریں گے شاید سب سے پہلے مری آواز پہ تلوار گری اور کچھ دیر مری آس نہ ٹوٹی ہوتی آخری موج تھی جب ہاتھ سے پتوار گری اگلے وقتوں میں سنیں گے در و دیوار مجھے میری ہر چیخ مرے عہد کے اس پار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5