Qaisarul Jafri

قیصر الجعفری

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

Famous for his ghazal "Divaron se mil kar rona achcha lagta hai".

قیصر الجعفری کے تمام مواد

43 غزل (Ghazal)

    شہر غزل میں دھول اڑے گی فن بنجر ہو جائے گا

    شہر غزل میں دھول اڑے گی فن بنجر ہو جائے گا جس دن سوکھے دل کے آنسو سب پت جھڑ ہو جائے گا ٹوٹیں گی جب نیند سے پلکیں سو جاؤں گا چپکے سے جس جنگل میں رات پڑے گی میرا گھر ہو جائے گا خوابوں کے یہ پنچھی کب تک شور کریں گے پلکوں پر شام ڈھلے گی اور سناٹا شاخوں پر ہو جائے گا رات قلم لے کے آئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا

    وہ ایک خیمۂ شب جس کا نام دنیا تھا کبھی دھواں تو کبھی چاندنی سا لگتا تھا ہماری آگ بھی تاپی ہمیں بجھا بھی دیا جہاں پڑاؤ کیا تھا عجیب صحرا تھا ہوا میں میری انا بھیگتی رہی ورنہ میں آشیانے میں برسات کاٹ سکتا تھا جو آسمان بھی ٹوٹا گرا مری چھت پر مرے مکاں سے کسی بد دعا کا رشتہ تھا تم ...

    مزید پڑھیے

    اس دور کی پلکوں پہ ہیں آنسو کی طرح ہم

    اس دور کی پلکوں پہ ہیں آنسو کی طرح ہم کچھ دیر میں اڑ جائیں گے خوشبو کی طرح ہم بڑھ کر کسی دامن نے بھی ہم کو نہ سنبھالا آنکھوں سے ٹپکتے رہے آنسو کی طرح ہم کس پھول سے بچھڑے ہیں کہ پھرتے ہیں پریشاں جنگل میں بھٹکتی ہوئی خوشبو کی طرح ہم اب دن کے اجالے میں ہمیں کون پکارے چمکے تھے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا بہت ہے متاع سفر سنبھال کے رکھ

    ہوا بہت ہے متاع سفر سنبھال کے رکھ دریدہ چادر جاں ہے مگر سنبھال کے رکھ پھر اس کے بعد تو قدریں انہیں پہ اٹھیں گی کچھ اور روز یہ دیوار و در سنبھال کے رکھ ابھی اڑان کے سو امتحان باقی ہیں ان آندھیوں میں ذرا بال و پر سنبھال کے رکھ یہ عہد کانپ رہا ہے زمیں کے اندر تک تو اپنا ہاتھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    پیا کرتے ہیں چھپ کر شیخ جی روزانہ روزانہ

    پیا کرتے ہیں چھپ کر شیخ جی روزانہ روزانہ چلے آتے ہیں آدھی رات کو مے خانہ روزانہ محبت جان بھی دیتی ہے ترساتی بھی ہے یارو کبھی پیمانہ برسوں میں کبھی پیمانہ روزانہ پریشاں ہوں کنول جیسی یہ آنکھیں چوم لینے دو کہ ان پھولوں پہ منڈلائے گا یہ بھونرا نہ روزانہ شرابوں کو نہ جانے لوگ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    نیلی جلد کی کتاب

    میرے گھر میں جھونج بنائے گوریا کا جوڑا چونچ میں لے کر آئے جائے بھوسہ تھوڑا تھوڑا بھوسے میں کچھ تنکے بھی ہیں کچھ مٹیالے پر نیلے پیلے اجلے میلے بھورے کالے پر باغوں باغوں ہو کر آئے اپنا گھر نہ بھولے پہلے وہ رسی پر بیٹھے پل بھر جھولا جھولے پھر الماری میں اڑ کر جائے سیدھے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    یہ وہ بستی ہی نہیں

    زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے خواب کھلتے تھے جہاں برف وہاں چھائی ہے سو دریچے ہیں مگر شمع کسی پر بھی نہیں چاند نکلے مری راتوں کا مقدر بھی نہیں کیا کروں کیا نہ کروں ہاتھ میں پتھر بھی نہیں شیش محلوں کو کوئی غم بھی نہیں ڈر بھی نہیں لوگ گونگے ہیں بیاباں میں اذاں کیسے ہو لوگ قاتل ...

    مزید پڑھیے