ذہن میں کون سے آسیب کا ڈر باندھ لیا
ذہن میں کون سے آسیب کا ڈر باندھ لیا تم نے پوچھا بھی نہیں رخت سفر باندھ لیا بے مکانی کی بھی تہذیب ہوا کرتی ہے ان پرندوں نے بھی ایک ایک شجر باندھ لیا راستے میں کہیں گر جائے تو مجبوری ہے میں نے دامان دریدہ میں ہنر باندھ لیا اپنے دامن پہ نظر کر مرے ہاتھوں پہ نہ جا میں نے پتھراؤ کیا ...