تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا
تم سے دو حرف کا خط بھی نہیں لکھا جاتا
جاؤ اب یوں بھی تعلق نہیں توڑا جاتا
دل کا احوال نہ پوچھو کہ بہت روز ہوئے
اس خرابے کی طرف میں نہیں آتا جاتا
تشنگی نے کبھی دریاؤں سے ملنے نہ دیا
ہم جدھر جاتے اسی راہ میں صحرا جاتا
زندگی! رہنے بھی دے سوچ کی حد ہوتی ہے
اتنا سوچا ہے کہ صدیوں میں نہ سوچا جاتا
اس کو انداز تغافل بھی نہ آیا اب تک
بھولنے ہی کو سہی یاد تو رکھا جاتا
ہائے وہ دور کہ آنسو بھی نہ تھے آنکھوں میں
اور چہرا تھا کہ بے روئے بھی بھیگا جاتا
بھولتا ہی نہیں وہ مرحلۂ راز و نیاز
ہم مناتے تو کوئی اور بھی روٹھا جاتا
پس دیوار کا منظر بھی گیا اپنے ساتھ
صحن ویران سے پتھر کہاں پھینکا جاتا
شام ہوتے ہی کوئی شمع جلا رکھنی تھی
جب دریچے سے ہوا آتی تو دیکھا جاتا
روشنی اپنے گھروندوں میں چھپی تھی ورنہ
شہر کے شہر پہ شب خون نہ مارا جاتا
اتنے آنسو مری آنکھوں میں کہاں تھے قیصرؔ
عمر بھر دل کے جنازے پہ جو رویا جاتا