Prem Bhandari

پریم بھنڈاری

  • 1949

پریم بھنڈاری کی غزل

    وہ ہوا کا مزاج رکھتے ہیں

    وہ ہوا کا مزاج رکھتے ہیں ہم چراغوں کی طرح جلتے ہیں اس کی قدرت کو دیکھ کر یارو ہم بھی ایمان اس پہ رکھتے ہیں جھوم کر تو اٹھے ہیں یہ بادل دیکھیے اب کہاں برستے ہیں ساری بے رنگ سوچ کے چہرے لفظ پہنیں تو پھر نکھرتے ہیں کیا خبر تھی ہمیں کہ لوگوں کی آستینوں میں سانپ پلتے ہیں

    مزید پڑھیے

    بات کریں یوں منہ نہ کھولیں

    بات کریں یوں منہ نہ کھولیں دل کی باتیں آنکھیں بولیں کیسے تنہا رات کٹے گی یادوں کی گٹھری ہی کھولیں بہت جئے اوروں کی خاطر اب تو کچھ اپنے بھی ہو لیں خوابوں کے کچھ بیج چنے ہیں آنکھوں کے کھیتوں میں بو لیں ہر لمحہ اک بوجھ لگے ہے جیسے بھی ڈھونا ہو ڈھو لیں

    مزید پڑھیے

    رنج و غم سے جو بے خبر ہوتا

    رنج و غم سے جو بے خبر ہوتا کاش ایسا بھی کوئی گھر ہوتا سنگ باری کا غم نہیں ہے مگر ایک پتھر کو ایک سر ہوتا اس بلندی سے گر کے رسوا ہوں اچھا ہوتا زمین پر ہوتا اس کی لاٹھی ہے بے صدا یارو کاش اس بات کا بھی ڈر ہوتا یہ ضلالت نہ جھیلنی پڑتی با ہنر سے جو بے ہنر ہوتا

    مزید پڑھیے

    پھول سا اک کھلا ہے آنکھوں میں

    پھول سا اک کھلا ہے آنکھوں میں کس کا چہرہ بسا ہے آنکھوں میں تم کو آنسو نظر نہیں آتا یاں سمندر چھپا ہے آنکھوں میں آ کے چہرے پہ جم گیا آنسو بن کے موتی رہا ہے آنکھوں میں اس کو دیکھا تو یوں ہوا محسوس اک چمن بھر لیا ہے آنکھوں میں نیند یوں اڑ گئی کہ لگتا ہے کوئی کانٹا چبھا ہے آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    دل دھڑکنے کا سبب کیا ہوگا

    دل دھڑکنے کا سبب کیا ہوگا پھر تجھے خواب میں دیکھا ہوگا پھول کے چہرے یہ شبنم کیسی آسماں رات میں رویا ہوگا جس نے خوابوں میں سمندر دیکھے اس کی تقدیر میں صحرا ہوگا تجھ سے بچھڑا تو گماں ہوتا ہے جانے کیا میں نے گنوایا ہوگا

    مزید پڑھیے

    اس کی پہلے سے تھی نظر شاید

    اس کی پہلے سے تھی نظر شاید جس کی مجھ کو خبر نہ تھی شاید گونگا آنگن ہے بہری دیواریں یہ خرابہ ہے اپنا گھر شاید چل کے کچھ دور رک گئے ہیں وہ نہ ملا مجھ سا ہم سفر شاید ہجر کی رات اتنی لمبی ہے جیسے ہوگی نہ اب سحر شاید رنگ تیرا اڑا اڑا سا ہے لگ گئی ہے تجھے نظر شاید

    مزید پڑھیے

    سردی گرمی برکھا تینوں ایک ساتھ ہی بستے ہیں

    سردی گرمی برکھا تینوں ایک ساتھ ہی بستے ہیں تیرے بدن میں وہ جادو ہے سارے موسم رہتے ہیں تیرے میرے بیچ نہیں ہے خون کا رشتہ پھر بھی کیوں تیری آنکھ کے سارے آنسو میری آنکھ سے بہتے ہیں ایک زمانہ بیتا تیرے پیار کے جنگل سے نکلے یاد کے سانپ تو تنہائی میں آج بھی مجھ کو ڈستے ہیں وعدہ کر کے ...

    مزید پڑھیے

    اول غزل عبادت کی

    اول غزل عبادت کی اس کے بعد شرارت کی مجھ کو یاد رہا تو بھولا بات ہے یہ تو عادت کی اس سے مل کر اور بڑھی ہے پیاس بجھی نہ چاہت کی دن بھر دکھ کے پتھر کاٹے رات ملی نہ راحت کی مجھ کو بھولنے والے تو نے مجھ پہ بڑی عنایت کی

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2