Prem Bhandari

پریم بھنڈاری

  • 1949

پریم بھنڈاری کی غزل

    بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا

    بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا میں قاتلوں کے ذہن کی سازش نہ بن سکا کوئی کمی نہ اس میں تھی شاید اسی لیے وہ شخص میرے واسطے خواہش نہ بن سکا میں رک نہیں سکا تو مری بے بسی تھی یہ بادل تھا اس کے صحن میں بارش نہ بن سکا جس پر تمام عمر بہت ناز تھا مجھے میرا وہ علم میری سفارش نہ بن ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

    ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے یہ الگ بات ہے یادوں میں بسا رکھا ہے ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے جو سدا ساتھ رہے اور دکھائی بھی نہ دے نام اس کا تو زمانے نے خدا رکھا ہے مرے چہرے پہ اجالا ہے تو حیراں کیوں ہے ہم نے سپنے میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہے مرے دل کی یہ تصویر نظر میں رکھ لو

    ہے مرے دل کی یہ تصویر نظر میں رکھ لو ایک ٹوٹا ہوا ارمان ہوں گھر میں رکھ لو جانتا ہوں کہ ابھی ساتھ نہیں آ سکتا پر مری یاد تو سامان سفر میں رکھ لو یوں تو اڑنے کے لئے طاقت پرواز بھی ہے پھر بھی چاہو تو مرا حوصلہ پر میں رکھ لو یہ وہی گاؤں ہیں فصلیں جو اگاتے تھے کبھی بھوک لے آئی ہے ان ...

    مزید پڑھیے

    بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا

    بات کیسی بھی ہو انداز نیا دیتا تھا ایسے ہنستا تھا کہ وہ سب کو رلا دیتا تھا کوئی مایوس جو ملتا تو نہ رہتا بے آس رنگ چہرے پہ تبسم کا سجا دیتا تھا عمر بھر ریت پہ چلتا رہا لیکن وہ شخص تپتی راہوں پہ ہری گھاس بچھا دیتا تھا کوئی انجام محبت کی جو باتیں کرتا پھول کے چہرے پہ شبنم وہ دکھا ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہنستے وہ جو رویا

    ہنستے ہنستے وہ جو رویا کوئی دیوانہ تھا گویا دل کے دکھ سے دیکھو میں نے آنکھوں کا یہ آنگن دھویا آنسو پائے حیرت کیوں ہے وہ کاٹا ہے جو تھا بویا برس لگے پانے میں جس کو اک لمحہ میں اس کو کھویا ساری ساری رات میں جاگا وہ میری آنکھوں میں سویا

    مزید پڑھیے

    دل میں غم آنکھ میں ہنسی دیکھی

    دل میں غم آنکھ میں ہنسی دیکھی یوں بھی اشکوں کی خود کشی دیکھی دینے والے نے ہم کو خوب دیا ہم نے ہر چیز میں کمی دیکھی کوئی بھی گھر نہیں تھا شیشہ کا پتھروں سے بھری گلی دیکھی وہ ہوا چپ تو میری نظروں نے ایک خوش رنگ سی کلی دیکھی ان کے دل پر نہیں جبینوں پر اک ریاکار بندگی دیکھی

    مزید پڑھیے

    وقت سفر جو ساتھ چلے تھے

    وقت سفر جو ساتھ چلے تھے لگتا تھا وہ لوگ بھلے تھے کانٹوں کی تاثیر لئے کیوں پھولوں جیسے لوگ ملے تھے اوروں کے گھر روشن کرنے ساری ساری رات جلے تھے پیاس بجھانا کھیل نہیں تھا یوں تو دریا پاؤں تلے تھے شام ہوئی تو سورج سوچے سارا دن بیکار جلے تھے

    مزید پڑھیے

    دن منہ کھولے گاتی دھوپ

    دن منہ کھولے گاتی دھوپ رات سے کیوں شرماتی دھوپ کھیل کود کر شام ڈھلے کیوں اپنے گھر کو جاتی دھوپ چلتے رہنا ہی جیون ہے ہم کو یہ سمجھاتی دھوپ دن جیسے ساتھی کے دکھ میں رو رو کر مر جاتی دھوپ کبھی کبھی اچھی لگتی ہے ہلکی سی برساتی دھوپ

    مزید پڑھیے

    وصل کیا ہے شمع جلا کر

    وصل کیا ہے شمع جلا کر پروانے کو راکھ بنا کر کبھی طلب نہ پاؤں سمیٹے چھوٹی پڑ جائے ہر چادر وہ کیا چین سے سویا ہوگا میری نیند کو پنکھ لگا کر میں تو سب کچھ بھول چکا ہوں تو بھولے تو بات برابر دیواروں کی تنہائی کو دور کروں تصویر لگا کر

    مزید پڑھیے

    سوچنا ہے تو پھر کھری سوچے

    سوچنا ہے تو پھر کھری سوچے دل کوئی بات نہ بری سوچے بھیک دے کر نہ جانے کیا لیں گے اک بھکارن ڈری ڈری سوچے کیوں گنوایا تھا راستے میں اسے آ کے منزل پہ رہبری سوچے ٹھہرنا ہوگا کیا اسی گھر میں آنکھ میں نیند کی پری سوچے میں وفا کے سوا نہ سوچوں کچھ وہ جو سوچے ستم گری سوچے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2