Pramod Pundhir Pyaasa

پرمود پونڈھیر پیاسا

پرمود پونڈھیر پیاسا کی غزل

    آہ نکلے نہ اب صدا نکلے

    آہ نکلے نہ اب صدا نکلے ہاتھ اٹھے تو بس دعا نکلے اشک آنکھوں کی ہے وفاداری جو نہ چھلکے تو بے وفا نکلے تم نہ مجنوں ہو نہ کوئی لیلیٰ عشق عمر دراز کیا نکلے آنکھ ڈرتی ہے اب خیالوں سے خواب کوئی نہ پھر برا نکلے روز پتھر تراشتا ہی رہا شاید ان میں کبھی صدا نکلے اس لیے چپ ہوں خاکساری ...

    مزید پڑھیے

    خط ادھورے تھے مگر وہ چٹھیاں اچھی لگیں

    خط ادھورے تھے مگر وہ چٹھیاں اچھی لگیں کاغذوں سے ہی سہی نزدیکیاں اچھی لگیں ذکر میں بھی نام ان کا ہم نہ لے پائے کبھی پیار میں ان بندشوں کی چپیاں اچھی لگیں رات بھی خاموش تھی اور چاند بھی غمگین تھا آنکھ میں ڈورے لیے وہ سرخیاں اچھی لگیں چاک خود ہی ہو گئی اس باغ کے ہی بام پر اف تلک نا ...

    مزید پڑھیے

    نیکیوں سے کل میری تنہائیاں کہنے لگیں

    نیکیوں سے کل میری تنہائیاں کہنے لگیں دور تک جو بن گئی ہیں کھائیاں کہنے لگیں فیصلہ بھی ہو نہیں پایا مقدر سے یہاں دھوپ میں جلتی ہوئی پرچھائیاں کہنے لگیں چاک دل اپنا رفو کرتے رہے جو ٹوٹ کر ہستیٔ گل بزم کی رعنائیاں کہنے لگیں پاؤں چلتے ہی رہے اور منزلیں بڑھتی گئیں مشرق و مغرب سے ...

    مزید پڑھیے

    ذکر میں آتے ہیں جب الفاظ کچھ

    ذکر میں آتے ہیں جب الفاظ کچھ ہم سخن بدلے ترے انداز کچھ آج کل ماحول کچھ اچھا نہیں ہیں چھپے محفل میں دست انداز کچھ روز جلتے ہیں پتنگے کس لیے اور بجھتی لو ہے بے آواز کچھ بچ گئیں یہ تو کرشمہ ہو گیا حد میں سورج کے جو تھیں پرواز کچھ آ گئی ہیں تلخیاں کردار میں ہو گئے بے پردا ہے اعجاز ...

    مزید پڑھیے