نیکیوں سے کل میری تنہائیاں کہنے لگیں

نیکیوں سے کل میری تنہائیاں کہنے لگیں
دور تک جو بن گئی ہیں کھائیاں کہنے لگیں


فیصلہ بھی ہو نہیں پایا مقدر سے یہاں
دھوپ میں جلتی ہوئی پرچھائیاں کہنے لگیں


چاک دل اپنا رفو کرتے رہے جو ٹوٹ کر
ہستیٔ گل بزم کی رعنائیاں کہنے لگیں


پاؤں چلتے ہی رہے اور منزلیں بڑھتی گئیں
مشرق و مغرب سے منہ کی جھائیاں کہنے لگیں


یاں حجابانہ فریبی ہی بصیرت ہو گئے
زاہدوں سے مسئلہ سچائیاں کہنے لگیں


پڑھ لیا کرتے ہمیں جو دیکھ کر کے آئنہ
وہ نظر ہی خود مری رسوائیاں کہنے لگیں


مفلسی خوددار ہونا سچ کہاں تک ہے بھلا
بھوک میں بکتی ہوئی انگڑائیاں کہنے لگیں


مانگ کے سندور اجڑے پالکی جلتی رہی
کیوں ہوئے ہنگامے یہ شہنائیاں کہنے لگیں