آہ نکلے نہ اب صدا نکلے
آہ نکلے نہ اب صدا نکلے
ہاتھ اٹھے تو بس دعا نکلے
اشک آنکھوں کی ہے وفاداری
جو نہ چھلکے تو بے وفا نکلے
تم نہ مجنوں ہو نہ کوئی لیلیٰ
عشق عمر دراز کیا نکلے
آنکھ ڈرتی ہے اب خیالوں سے
خواب کوئی نہ پھر برا نکلے
روز پتھر تراشتا ہی رہا
شاید ان میں کبھی صدا نکلے
اس لیے چپ ہوں خاکساری میں
کیا پتہ گھر کا ہی دیا نکلے
خاک جب بھی اڑے گلی میں ترے
میں جلوں اور بس دھواں نکلے
ڈوبنے کو سفینہ ہے میرا
کاش کوئی تو اب دعا نکلے
یا خدا تنگ آ گیا ہوں میں
درد نکلے نہ کچھ دوا نکلے
پیاساؔ ناواقفوں کی بستی میں
ڈھونڈھتا ہوں کوئی سگا نکلے