Perwaiz Shaharyar

پرویز شہریار

پرویز شہریار کی نظم

    جامد لمحوں کے سائے

    چولا بدلنے سے خصلت نہیں بدلتی لوگو تم اپنے صحت مند جسم پر چاہے کتنا ہی غازہ مل لو اس سے روح کے زخم کبھی بھر نہیں سکتے روح کی پیاس بجھانے کے لیے تمہیں ان ہی مٹی سے ابلتے ہوئے چشموں کی ضرورت ہوگی ایک دن خوشبو بن کر آکاش پر اڑنے والوں کو بھی ابدی سکون مٹی کے ہی بستروں پہ ملا کرتا ...

    مزید پڑھیے

    شاعر کا خواب

    میرے پوتے نے آکسیجن کا بستہ اپنی پیٹھ پر باندھ کر اجازت مانگی خلا کے سفر کے لیے میرے بیٹے نے جو روشنی کو گن رہا تھا میز پر اپنی نگاہوں کے دو سوالیہ شانوں کو اچھال دیا میری طرف میں نے دوا کی گولیوں کے رکھتے ہوئے ایک مریضہ کے نحیف ہاتھ میں اپنی جھریوں کے بھنور سے پھینک دیا دو نگاہوں ...

    مزید پڑھیے

    میری رامائن ادھوری ہے ابھی

    میری رامائن ادھوری ہے ابھی میری سیتا اور مجھ میں حائل دوری ہے ابھی میری سیتا اداس ہے رشتوں کا پھیلا بن باس ہے پھرنا ہے مجھے ابھی جنگل جنگل صحرا صحرا ساگر ساگر میرا حمزہ وہی میرا لچھمن ہے ابھی زمانہ تو عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے سادھوؤں کے بہروپ میں ہیں پوشیدہ ابھی نہ جانے راکشش ...

    مزید پڑھیے

    محبت کے اس بے کراں سفر میں

    عورت! تیرے کتنے روپ، تیرے کتنے نام محبت کے اس بے کراں سفر میں کتنے پڑاؤ، کتنے مقام کبھی کلی، کبھی پھول اور کبھی مرجھائی ہوئی پنکھڑی کبھی انار، کبھی ماہتاب اور کبھی پھلجھڑی تخلیق کا منبع، شکتی کا خزینہ تیری ذات محور لامتناہی سلسلۂ حیات و ممات شفقت، محبت، ایثار و وفا سب تیرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2