Perwaiz Shaharyar

پرویز شہریار

پرویز شہریار کی نظم

    ہجرت کی صلیب

    ندامت کی کڑی دھوپ میں نہائے ہوئے زیست کے اس کڑے کوس پڑاؤ میں جہاں سیپیاں روشنی کے دخول کے لیے دریچے کھولا نہیں کرتیں سوچتا ہوں اس بھری دنیا میں تنہا کھڑا خاکستر حسرتوں کی انگلی تھامے کمہلائے ہوئے ارماں یوں بھی نکل سکتے تھے موتیوں کی چمک دمک کی چاہ میں در بہ در پھرے بغیر رشتوں کے ...

    مزید پڑھیے

    صندل کی خوشبو اور سانپ

    کوئی افعی ہے جو چندن کے پیڑ کی خوشبو سے مخمور ہو اٹھتا ہے اس کی شاخوں اس کے پتوں سے لپٹ کر نہ جانے کیا ڈھونڈتا رہتا ہے جیسے چاند کی تاک میں ہر دم چکور رہتا ہے جیسے چاند کی گھات میں کوئی میگھ کا کالا چور رہتا ہے اور پھر ایک پل ایسا بھی آتا ہے جب وہ چاند کو اپنی بانہوں میں بھر لیتا ...

    مزید پڑھیے

    انتظار کے دوش پر

    دیوار سے لٹکائے افسردہ کھڑا ہے یوکیلپٹس کا درخت سوچ میں گم اب تک وہ سنہرے بال والی شوخ کرن آئی نہیں آتے ہی لپٹ جائے گی میرے جسم سے بیلوں کی طرح رات پگھلتی رہی ہے بوند بوند دم توڑتی ہیں آخری ساعتیں اے دل ناداں دل بے تاب ٹھہر بس کچھ ہی پل اور صبر کر اجالا ہونے بھر

    مزید پڑھیے

    بڑے شہر کا خواب

    بڑا شہر بڑا شہر، بڑا شہر بڑا شہر کسی کے لیے تو باعث طمانیت کسی کے لیے تو سامان مسرت اور کسی کے لیے ہے تو، سراسر قہر بڑے شہر کی چاہ میں، جانے کتنے تباہ ہوئے کتنے روٹھے اپنوں سے کتنے چھوٹے ہم وطنوں سے لمحہ لمحہ الجھتے رہے سچے جھوٹے سپنوں سے بڑے شہر کا خواب لیے، ہر پل نیا عذاب ...

    مزید پڑھیے

    ماس کی عورت

    وہ حاملین پسلیاں جو آدمی کے کنکال کو ناؤ بنا کر کھینا چاہتی ہیں آج باد مخالف کے برعکس موج حوادث کے خلاف اپنے مفاد میں تو اس میں کیا ہے ان کا قصور تنہائی سے جو اچانک گھبرا گئے تھے حضرت آدم بس اسی بات کا سارا فسانہ سارا فتور پھر تو پسلیٔ آدم سے نمو پزیر ہوا وجود زن اسی وجود زن سے ...

    مزید پڑھیے

    شجر ممنوعہ سے پرے

    اے بی بی حوا ہم تیرے بچے تجھ سے بچھڑ کے بشری سمندر کے پے در پے تھپیڑوں سے دور اور بھی دور ہو گئے ہیں بھیڑ میں کھو گئے ہیں تمہارے ہمارے درمیاں تھا جو حرف شیریں کا قصہ وہ درد آشنا لمحہ، وہ ممتا سے لبریز رشتہ اس رشتے کی ڈور سے بندھے ہم خلاؤں میں ہچکولے کھا رہے ہیں پتنگوں کی مانند ننھے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون سا شہر ہے

    حیران ہوں یہ کون سا شہر ہے میرؔ و غالبؔ کی دلی کبھی ایسی تو نہ تھی ہر گلی ہر نکڑ پر سانپ کنڈلی مارے بیٹھے ہیں یہاں پیدا ہوتے ہی کوئی بھی سنپولہ ڈسنے کے لیے پر تولنے لگتا ہے جدھر دیکھیے ہر جگہ سانپ ہی سانپ ہیں کہیں خونی دروازے کے عقب سے تو کہیں دھولہ کنواں کے فلائی اوور پر ہر جگہ ...

    مزید پڑھیے

    نوستالجیا

    وقت کبھی ٹھہرتا نہیں سمندر کی لہروں کی طرح متواتر چلتا رہتا ہے لیکن تاریک دلدل میں پھنسے ہوئے لمحے ان ساعتوں کا ارتعاش چند ثانئے کے سرگم کے سائے تمام عمر روح میں پیوست ہو کر انسان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں رحم مادر کی شریانیں جیسے بحریں موجوں کے مہیب سائے کی طرح مکین رحم کے ننھے ...

    مزید پڑھیے

    بڑا شہر اور تنہا آدمی

    دسمبر کا مہینہ اور دلی کی سردی ستاروں کی جھلملاتی جھرمٹ سے پرے آسمان کے ایک سنسان گوشے میں پونم کا ٹھٹھرتا ہوا کوئی چاند جیسے بادلوں میں کھاتا ہے متواتر ہچکولے ہولے ہولے تنہا مسافر اور دور تک کہرے کی چادر میں لپٹی بل کھاتی سڑکیں دھند کی غبار میں کھویا ہوا انڈیا گیٹ ٹھنڈ میں ...

    مزید پڑھیے

    تعاقب اپنے ہم زاد کا

    چھوڑ آیا ہوں میں اپنا چھوٹا سا گھر تعاقب کرتا ہے وہ اب میرا عمر بھر جنگل کنارے پربتوں کے تلے ہری بھری وادیوں میں جہاں بہتے تھے برساتی پرنالے چھوڑ آیا ہوں میں اپنا چھوٹا سا گھر حد نگاہ تک وہ خوشنما منظر بادلوں کی اوٹ سے پہاڑی نظارے بجلی کی چمک بادل کی گرج کبھی چھت ٹپکتی تھی تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2