Pandit Vidya Rattan Asi

پنڈت ودیا رتن عاصی

پنڈت ودیا رتن عاصی کی غزل

    امتیاز بیش و کم سے دور ہے

    امتیاز بیش و کم سے دور ہے دل محبت کے نشے میں چور ہے غم اٹھا کر بھی بڑا مسرور ہے کس قدر سادہ دل رنجور ہے ایک مشت خاک ہے اس کا وجود آدمی کس بات پر مغرور ہے اس کے آگے ایک بھی چلتی نہیں دل کے ہاتھوں ہر کوئی مجبور ہے حسن کو گو ناز ہے خود پر مگر عشق بھی اپنی جگہ مغرور ہے حضرت عاصیؔ کی ...

    مزید پڑھیے

    تم کو چاہا تم کو پوجا

    تم کو چاہا تم کو پوجا کیا یہ میرا پاگل پن تھا پل میں تولہ پل میں ماشا ناداں یہ دنیا ہے دنیا تیرا ہو کر جینا چاہا میں بھی کتنا دیوانہ تھا تیرا رتبہ عرش سے اونچا تجھ کو مجھ سے نسبت ہی کیا میری تو ہستی ہی کیا تھی لیکن تو نے کس کو بخشا تیرا حسن ہے عالم عالم میرا عشق ہے تنہا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تسکیں کبھی آزار بھی ہے

    کبھی تسکیں کبھی آزار بھی ہے محبت پھول بھی ہے خار بھی ہے پگھل جاتی ہے مثل شمع لیکن محبت آہنی دیوار بھی ہے ترے ہونٹوں پہ ہے انکار لیکن تری آنکھوں میں کچھ اقرار بھی ہے بظاہر ہیں سبھی غم خوار لیکن حقیقت میں کوئی غم خوار بھی ہے کبھی ان کی نظر ہے وجہ تسکیں کبھی چلتی ہوئی تلوار بھی ...

    مزید پڑھیے

    لوگ جو دل فگار ہوتے ہیں

    لوگ جو دل فگار ہوتے ہیں چلتے پھرتے مزار ہوتے ہیں جو محبت میں خار ہوتے ہیں صاحب صد وقار ہوتے ہیں جن کے دامن میں خار ہوتے ہیں قدردان بہار ہوتے ہیں جو محبت شعار ہوتے ہیں سازشوں کا شکار ہوتے ہیں میری بربادیٔ محبت پر آپ کیوں شرمسار ہوتے ہیں ان کے قول و قرار کیا کہئے صرف قول و قرار ...

    مزید پڑھیے

    نالۂ دل رائیگاں دیکھیے کب تک رہے

    نالۂ دل رائیگاں دیکھیے کب تک رہے نا مرادی کامراں دیکھیے کب تک رہے میری الفت کا یقیں دیکھیے کب ہو انہیں یہ حقیقت داستاں دیکھیے کب تک رہے دیکھیے کب تک رہیں زندگی پر ہم گراں زندگی ہم پر گراں دیکھیے کب تک رہے دیکھیے کب تک رہیں در بدر کی ٹھوکریں گردش ہفت آسماں دیکھیے کب تک ...

    مزید پڑھیے

    مفلسوں پر جب کبھی آیا شباب

    مفلسوں پر جب کبھی آیا شباب گھڑ لئے دنیا نے قصے بے حساب کون جانے ان کی کیا تعبیر ہو ہم نے آنکھوں میں سجائے ہیں جو خواب لڑکھڑا جائیں نہ کیوں ہم بے پیے ان کی آنکھوں سے چھلکتی ہے شراب ہائے ہم اس کا مقدر کیا کہیں ایک دل ہے اور غم ہیں بے حساب لذت شیرینیٔ ہستی کہاں تلخیوں میں کٹ گیا ...

    مزید پڑھیے

    کیوں نہ ہم آج حقیقت ہی بتا دیں اپنی

    کیوں نہ ہم آج حقیقت ہی بتا دیں اپنی جسم اپنا ہی نہ اس جسم میں سانسیں اپنی سچ تو یہ ہے کہ کبھی خود کو تلاشا ہی نہ تھا اور آئی بھی نہ تھیں برسوں سے یادیں اپنی بوجھ اس دل کا کسی روز تو ہلکا ہوگا کھل کے برسیں گی کسی روز تو آنکھیں اپنی اب یہ عالم ہے ہم اک دوجے کو سن لیتے ہیں اور خاموش ...

    مزید پڑھیے

    کبھی میں نے انہیں پوچھا نہیں ہے

    کبھی میں نے انہیں پوچھا نہیں ہے انہیں بھی ہے محبت یا نہیں ہے اجازت ہو تو میں یہ عرض کر دوں سلیقہ آپ کا اچھا نہیں ہے وہی چھایا ہوا ہے زندگی پر وہ جس کو آج تک دیکھا نہیں ہے ستم آلام محرومی تباہی مری تقدیر میں کیا کیا نہیں ہے ابھی کچھ اور بھی جور و ستم ہوں ابھی صدموں سے دل ٹوٹا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5