P P Srivastava Rind

پی.پی سری واستو رند

پی.پی سری واستو رند کی غزل

    اندھیرے ڈھونڈنے نکلے کھنڈر کیوں

    اندھیرے ڈھونڈنے نکلے کھنڈر کیوں خدا جانے ہوئے یہ در بدر کیوں یہ بو اجڑے ہوئے بازار کی ہے مری بستی ہوئی نا معتبر کیوں سماعت منجمد سی ہو رہی ہے مگر شعلہ بیانی پر اثر کیوں اگر احساس ہی حیرت زدہ ہے تو کاندھے پر لیے پھرتے ہو سر کیوں یہ بوجھل شام کا دھندلا تصور مرے احساس پر چھایا ...

    مزید پڑھیے

    فکر کم بیان کم

    فکر کم بیان کم رہ گئی زبان کم دھوپ میں ڈھلان کم روشنی میں جان کم بارشوں کی انتہا چھت پہ آسمان کم زلزلوں نے کر دیئے شہر کے مکان کم خامشی ہی خامشی مرغ کی اذان کم دھوپ شعلہ بار ہے چھاؤں کا گمان کم جسم میں تناؤ ہے ہڈیوں میں جان کم رندؔ اب سکوں کہاں ہے عذاب جان کم

    مزید پڑھیے

    فضائیں خشک تھیں گھر کی تو باہر کیوں نہیں دیکھا

    فضائیں خشک تھیں گھر کی تو باہر کیوں نہیں دیکھا دریچوں سے وہ ہنگاموں کا منظر کیوں نہیں دیکھا زمیں کے خشک لب یہ موسموں کا زہر پیتے ہیں تو تم نے آسمانوں کا سمندر کیوں نہیں دیکھا فضاؤں کی کسک سے کچھ تقاضے بھی بدلتے ہیں ہوس لمحات کو تم نے کچل کر کیوں نہیں دیکھا سنا یہ ہے سمندر میں ...

    مزید پڑھیے

    بے تعلق روح کا جب جسم سے رشتہ ہوا

    بے تعلق روح کا جب جسم سے رشتہ ہوا گھر میں لا وارث پس منظر کا سناٹا ہوا دھوپ لہجے میں نوکیلاپن کہاں سے لائے گی ہم نے دیکھا ہے شفق سورج ابھی بجھتا ہوا چاہتا ہے دل کسی سے راز کی باتیں کرے پھول آدھی رات کا آنگن میں ہے مہکا ہوا سرخ موسم کی کہانی تو پرانی ہو گئی کھل گیا موسم تو سارے ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں کرب کا احساس گھولتی ہوئی رات

    فضا میں کرب کا احساس گھولتی ہوئی رات ہوس کی کھڑکیاں دروازے کھولتی ہوئی رات عجیب رشتے بناتی ہے توڑ دیتی ہے نئی رتوں کے سفیروں سے بولتی ہوئی رات یہ دھڑکنوں کے اندھیرے یہ زخم زخم چراغ کواڑ خالی مکانوں کے کھولتی ہوئی رات اتھاہ گہرا اندھیرا غضب کا سناٹا فضا میں درد کا تیزاب ...

    مزید پڑھیے

    سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں

    سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں ہر چہرے پر ایک کہانی پڑھتے ہیں نام نہیں ہے کوئی بھی دروازے پر تختی پر بس ایک نشانی پڑھتے ہیں تشنہ لب لہروں نے کیا کیا لکھ ڈالا خشک ریت پر پانی پانی پڑھتے ہیں نیا سبق تو یاد نہیں ہوتا ہم کو جب پڑھتے ہیں بات پرانی پڑھتے ہیں جب کوئی مانوس سی خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    پیش منظر جو تماشے تھے پس منظر بھی تھے

    پیش منظر جو تماشے تھے پس منظر بھی تھے ہم ہی تھے مال غنیمت ہم ہی غارت گر بھی تھے آستینوں میں چھپا کر سانپ بھی لائے تھے لوگ شہر کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ بازی گر بھی تھے برف منظر دھول کے بادل ہوا کے قہقہے جو کبھی دہلیز کے باہر تھے وہ اندر بھی تھے آخر شب درد کی ٹوٹی ہوئی بیساکھیاں آڑے ...

    مزید پڑھیے

    نیم کے پتوں کا زخموں کو دھواں دے دیجئے

    نیم کے پتوں کا زخموں کو دھواں دے دیجئے پھر مری آنکھوں کو پہرے داریاں دے دیجئے ہو سکے تو یہ نوازش ہم فقیروں پر کریں بجھتے رنگوں کا ہمیں یہ آسماں دے دیجئے شب پرستوں کو بھی تسکین انا مل جائے گی ان کا حق ہے ان کو شب بیداریاں دے دیجئے شاخ پر کانٹوں کو پیراہن بدلنے کے لیے موسموں کو ...

    مزید پڑھیے

    مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم

    مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم بستی میں بچ گئے تھے مکاں کم بہت ہی کم میرے لہو کا ذائقہ چکھتا رہا تھا درد تنہائیاں تھیں رات جہاں کم بہت ہی کم کانٹوں کو سینچتی رہی پرچھائیوں کی فصل جب دھوپ کا تھا نام و نشاں کم بہت ہی کم آنگن میں دھوپ دھوپ کو اوڑھے اداسیاں گھر میں تھے زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    نشاط درد کے موسم میں گر نمی کم ہے

    نشاط درد کے موسم میں گر نمی کم ہے فضا کے برگ شفق پر بھی تازگی کم ہے سراب بن کے خلاؤں میں گم نظارۂ سمت مجھے لگا کہ خلاؤں میں روشنی کم ہے عجیب لوگ ہیں کانٹوں پہ پھول رکھتے ہیں یہ جانتے ہوئے ان میں مقدری کم ہے نہ کوئی خواب نہ یادوں کا بیکراں سا ہجوم اداس رات کے خیمے میں دل کشی کم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2