P P Srivastava Rind

پی.پی سری واستو رند

پی.پی سری واستو رند کی غزل

    سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے

    سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے بڑھ رہے ہیں شام کے سائے دھواں سر پر اٹھائے ریگ زاروں میں بھٹکتی سوچ کے کچھ خشک لمحے تلخئ حالات کی ہیں داستاں سر پر اٹھائے خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے چند گونگی دستکیں ہیں گھر کے دروازے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں

    ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں چھت پہ تارا بھی جو ٹوٹا تو صدا آئی ہمیں قہقہہ زار فضاؤں میں عجب بھیڑ سی تھی گھر کا ماحول جو دیکھا تو ہنسی آئی ہمیں ہم سرابوں کے مسافر تھے مگر جانتے تھے کس کے دم پر نہ ڈراتی رہی پروائی ہمیں چھاؤں نے آبلہ پائی کے سوا کچھ نہ دیا دھوپ دیتی رہی ...

    مزید پڑھیے

    روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم

    روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم دھند منظر پس غبار تھے ہم دھوپ میں آئے تو سکون ملا چھاؤں میں تھے تو داغ دار تھے ہم کوئی دستک نہ کوئی آہٹ تھی مدتوں وہم کے شکار تھے ہم بت گری میں ہنر بھی شامل تھا سنگ سازی سے ہوشیار تھے ہم قرض کوئی بھی جسم و جاں پہ نہ تھا زندگی پر مگر ادھار تھے ...

    مزید پڑھیے

    احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں

    احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں رسوائیوں کی بھیڑ میں انعام دو ہمیں خودداریوں کی دھوپ میں آرام دو ہمیں سوغات میں ہی گردش ایام دو ہمیں احساس لمس جسم کی اس بھیڑ میں کہاں کالی رتیں گناہ کا پیغام دو ہمیں گم صم حصار ربط میں ہے لمحۂ عذاب خواہش کا کرب فطرت بد نام دو ہمیں بے زاریوں کو ...

    مزید پڑھیے

    ممتا بھری نگاہ نے روکا تو ڈر لگا

    ممتا بھری نگاہ نے روکا تو ڈر لگا جب بھی شکار زین سے باندھا تو ڈر لگا تنہا فصیل شہر پہ بیٹھی ہوئی تھی شام جب دھندلکوں نے شور مچایا تو ڈر لگا اپنے سروں پہ پگڑیاں باندھے ہوئے تھے لفظ مضمون جب نیا کوئی باندھا تو ڈر لگا بجھتے ہوئے الاؤ میں آتش فشاں بھی تھے کہرام رتجگوں نے مچایا تو ...

    مزید پڑھیے

    ہم دشت بے کراں کی اذاں ہو گئے تو کیا

    ہم دشت بے کراں کی اذاں ہو گئے تو کیا وحشت میں اب کی بار زیاں ہو گئے تو کیا باسی گھٹن سے گھر کے اندھیرے نہ کم ہوئے ہم رات جگنوؤں کی دکاں ہو گئے تو کیا الجھن بڑھی تو چند خرابے خرید لائے سودے میں اب کی بار زیاں ہو گئے تو کیا گھر میں ہمارے قید رہا زندگی کا شور ہم بے زبان نذر فغاں ہو ...

    مزید پڑھیے

    افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا

    افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا مہیب رات کا شیرازہ ہی بکھرنے لگا تمام عمر جو لڑتا رہا مرے اندر مرا ضمیر ہی مجھ سے فرار کرنے لگا سفر میں جب کبھی لا سمتیوں کا ذکر ہوا ہمارا قافلہ طول سفر سے ڈرنے لگا سلگ رہا ہے کہیں دور درد کا جنگل جو آسمان پہ کڑوا دھواں بکھرنے لگا چڑھی ندی ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے بند کمروں میں پڑے تھے

    اندھیرے بند کمروں میں پڑے تھے اجالے سیر پر نکلے ہوئے تھے گھروں میں کھانستی تنہائیاں تھیں یہ سناٹے پرانی نسل کے تھے ہوس کی بستیاں آتش زدہ تھیں بڑے کڑوے کسیلے واقعے تھے صدائیں جھینگروں کی بڑھ رہی تھیں اندھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے سہاگن تھے مری بستی کے موسم کھنکتی چوڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے

    رات کے گنبد میں یادوں کا بسیرا ہو گیا ہے چاند کی قندیل جلتے ہی اجالا ہو گیا ہے خامشی کی آندھیاں باغی نظر آتی ہیں مجھ کو رات کالی ہے تو سناٹا بھی کالا ہو گیا ہے اب محبت ہے مروت ہے نہ اب انکساری آج کے اس دور میں ہر شخص ننگا ہو گیا ہے قصۂ ریگ رواں جب آندھیوں کی زد پہ آیا دھند کا ...

    مزید پڑھیے

    ایسے بھی کچھ لمحے یارو آئیں گے

    ایسے بھی کچھ لمحے یارو آئیں گے ہم مشکوک نظر سے دیکھے جائیں گے نیند بھری آنکھیں بھی دھوکہ دیتی ہیں جاگو گے تو خواب کہاں سے آئیں گے ان سے پردہ داری گھر میں مشکل ہے فرصت کے لمحے ہیں آئیں جائیں گے دھول ہوا جاتا ہے منظر راتوں کا خوابوں کا معیار کہاں سے لائیں گے سناٹا آوارہ پھرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2