سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے
سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے بڑھ رہے ہیں شام کے سائے دھواں سر پر اٹھائے ریگ زاروں میں بھٹکتی سوچ کے کچھ خشک لمحے تلخئ حالات کی ہیں داستاں سر پر اٹھائے خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے چند گونگی دستکیں ہیں گھر کے دروازے ...