سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں
سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں
ہر چہرے پر ایک کہانی پڑھتے ہیں
نام نہیں ہے کوئی بھی دروازے پر
تختی پر بس ایک نشانی پڑھتے ہیں
تشنہ لب لہروں نے کیا کیا لکھ ڈالا
خشک ریت پر پانی پانی پڑھتے ہیں
نیا سبق تو یاد نہیں ہوتا ہم کو
جب پڑھتے ہیں بات پرانی پڑھتے ہیں
جب کوئی مانوس سی خوشبو آتی ہے
لمس میں اس کے رات کی رانی پڑھتے ہیں
فرصت کے لمحوں میں ہم اکثر اے رندؔ
تحریریں جانی پہچانی پڑھتے ہیں