ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں
ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں
چھت پہ تارا بھی جو ٹوٹا تو صدا آئی ہمیں
قہقہہ زار فضاؤں میں عجب بھیڑ سی تھی
گھر کا ماحول جو دیکھا تو ہنسی آئی ہمیں
ہم سرابوں کے مسافر تھے مگر جانتے تھے
کس کے دم پر نہ ڈراتی رہی پروائی ہمیں
چھاؤں نے آبلہ پائی کے سوا کچھ نہ دیا
دھوپ دیتی رہی احساس توانائی ہمیں
ہم کو تو دلدلی سمتوں کا بھی اندازہ تھا
ریت دریا کی بھی معلوم تھی گہرائی ہمیں
رندؔ خاموش سی یلغار تھی چوراہے پر
کانچ کے گھر سے جو بازار میں لے آئی ہمیں