پہلے گھرے تھے بے خبروں کے ہجوم میں
پہلے گھرے تھے بے خبروں کے ہجوم میں اب آ گئے ہیں دیدہ وروں کے ہجوم میں کچھ بھی نہیں ہے اڑتی ہوئی راکھ کے سوا کیا ڈھونڈتے ہو کم نظروں کے ہجوم میں شہروں میں آئنوں کے خریدار ہی نہیں اک بے کلی ہے شیشہ گروں کے ہجوم میں پہچان لیجے کون ہے انساں کا رہنما ان بے شمار راہبروں کے ہجوم ...