اسامہ امیر کی غزل

    عجب آہنگ تھا اس شور میں بھی خرچ ہوئی

    عجب آہنگ تھا اس شور میں بھی خرچ ہوئی میری آواز سکوت عجبی خرچ ہوئی ایک ہی آن میں دیدار ہوا بات ہوئی خواہش وصل سر طور سبھی خرچ ہوئی زندگی تیرے تعاقب میں گزاری ہوئی شب بڑی مشکل سے ملی اور یوں ہی خرچ ہوئی صبح تک زلف سیہ رنگ کا جادو تھا عجب رات بوتل میں تھی جتنی بھی بچی خرچ ہوئی صبح ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی میں انہیں دل میں آن رکھتا ہوں

    کبھی کبھی میں انہیں دل میں آن رکھتا ہوں پھر ایک خواب میں دونوں جہان رکھتا ہوں جب آسمان سبھی کے سروں پہ قائم ہے تو کس کے واسطے میں سائبان کرتا ہوں میں لفظ و معنی بدلتے ہوئے سر قرطاس پلٹ کے پھر وہی نوحہ بیان رکھتا ہوں ازل سے ایک ہی نقصان کھا رہا ہے مجھے ازل سے خود کو فقط رائیگان ...

    مزید پڑھیے

    کتنے اسرار واہمے میں ہیں

    کتنے اسرار واہمے میں ہیں ہم کہ مصروف کھوجنے میں ہیں ہم سفر لا مکان کو پہنچا اور ہم پہلے مرحلے میں ہیں تو ابھی تک دکھا نہیں ہے ہمیں ہم ابھی تک مراقبے میں ہیں یہ جو کھڑکی کے پار منظر ہے مسئلہ اس کو دیکھنے میں ہیں اپنی اپنی ہی فکر ہے سب کو اپنے اپنے ہی دائرے میں ہیں واعظا انتظار ...

    مزید پڑھیے

    پری کے آنے کے امکان بنتے جاتے ہیں

    پری کے آنے کے امکان بنتے جاتے ہیں یہ دشت سارے گلستان بنتے جاتے ہیں عجب ہوس ہے محلے میں تخت جیتنے کی یہ لوگ ہیں کہ سلیمان بنتے جاتے ہیں میں ان کو دیکھ کے چاہوں کے وہ گلے لگ جائیں وہ مجھ کو دیکھ کے انجان بنتے جاتے ہیں وہ جتنے سوچ کے مشکل سوال کرتا ہے جواب اتنے ہی آسان بنتے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    میں نے سن رکھی ہے صاحب ایک کہانی دریا کی

    میں نے سن رکھی ہے صاحب ایک کہانی دریا کی شام کنارے بیٹھ کے اک دن وہ بھی زبانی دریا کی ورنہ ہم بھی آئینے کے بھید سے واقف ہو جاتے ہم نے اپنی من مانی کی ایک نہ مانی دریا کی ریت کے چھوٹے ٹکڑے پر ہی آبادی مقصود ہوئی اسی بہانے چاروں جانب ہے سلطانی دریا کی آنکھیں ہی اظہار کریں تو شاید ...

    مزید پڑھیے

    اپنے تصورات سے آگے نکل گیا

    اپنے تصورات سے آگے نکل گیا کل شب میں کائنات سے آگے نکل گیا سورج کو دیکھنے کے لئے میں دم سحر بے اختیار رات سے آگے نکل گیا وہ پتھروں کو کرنے لگا آئینہ صفت میں حد ممکنات سے آگے نکل گیا منظر بہت کھلے مری آنکھوں کے سامنے لیکن میں واقعات سے آگے نکل گیا میں ہاں اور اک نہیں کے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا

    عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا کہ میرے خواب طلسمات میں نہیں آیا کھلے کواڑ مرے گھر کے بین کرتے رہے کوئی بھی ہاتھ مرے ہاتھ میں نہیں آیا وہ اس لیے ہی تو آیا تھا پھول کھل جائیں پھر اس کے بعد وہ باغات میں نہیں آیا گنہ معاف میں اس کو خدا بنا بیٹھا خدا خیال ملاقات میں نہیں آیا میں ...

    مزید پڑھیے

    جب روشنی چمکی تو اٹھایا سر ساحل

    جب روشنی چمکی تو اٹھایا سر ساحل مٹی کے پیالے میں تھا سونا سر ساحل پانی پہ مکاں جیسے مکیں اور کہیں غم کچھ ایسے نظر آئی تھی دنیا سر ساحل جب طے ہو ملاقات اس آشفتہ سری سے تم اور ہی کچھ رنگ پہننا سر ساحل کشتی میں نظر آئی تھی جنت کی تجلی پتوار اٹھاتے ہی میں بھاگا سر ساحل اب قوم اتارے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا

    عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا کہ میرے خواب طلسمات میں نہیں آیا وہ اس لئے ہی تو آیا تھا پھول کھل جائیں پھر اس کے بعد وہ باغات میں نہیں آیا میں چاہتا تھا اسے چھو کے دیکھ لوں لیکن وہ آسمان مرے ہات میں نہیں آیا وگرنہ تم سے تعلق میں ختم کر دیتا پہ انتشار بیانات میں نہیں آیا گنہ ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میرا قیاس پہنے ہوئے

    ذہن میرا قیاس پہنے ہوئے دل ہے خوف و ہراس پہنے ہوئے اس کی آنکھوں میں سات دریا ہیں اور مرے ہونٹ پیاس پہنے ہوئے بھیڑیے نے عجیب چال چلی چھپ گیا سبز گھاس پہنے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں بام و در اکثر آئنے آس پاس پہنے ہوئے ہیں جو منہ بولے کچھ فقیر میاں یہ لبادے ہیں خاص پہنے ہوئے بات کرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2